احتجاجی تحریکوں میں تشدد کیوں ؟

June 08, 2023

ہماری آج کی تہذیب یافتہ جمہوری دنیا میں احتجاج کا حق ایک مقدس بنیادی انسانی حق کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا ہے، جسے یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر کےتحت تمام ممالک کے جمہوری دساتیر میں فنڈا مینٹل رائٹس کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے محض ایک شرط کے ساتھ کہ یہ احتجاج بہرصورت پرامن ہو گا، آپ کے اس ایجی ٹیشن سے کسی کی جان ومال کوخطرہ نہیں ہو گا۔

ہماری سوسائٹی میں سماجی و عوامی سطح پر حقِ زندگی سےمتعلق تو احساس و ادراک ہے جبکہ حق مال و عزت پر وہ حساسیت نہیں ہے، اس کی وجہ صرف لاعلمی و جہالت ہے ورنہ عامۃالناس کی دلچسپی و ابلاغ کیلئے درویش ایک معروف روایت کا حوالہ دینا چاہتا ہے جو اسے بچپن سے ازبر ہے ۔ ’’جو شخص اپنے مال واملاک کی حفاظت میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے، اسی طرح ایک جگہ آبرو کا ریفرنس بھی ہے مطلب کہ شرعی لوگوں کو بھی یہ ادراک ہونا چاہئے کہ جان کے بعد مال املاک اورآبرو کی کیا اہمیت ہے۔

برٹش سوسائٹی میں ارتقاء کے ساتھ جب قوانین میں شعوری ترقی کی مطابقت میں باریکی کے ساتھ بہتر تدوین ہوتی چلی گئی تو یہ اپروچ صدیوں پہلے نکھرنا شروع ہو گئی ،یوں جائز ردعمل اور ناجائز ردعمل میں فرق واضح ہوا، احساسات کو چوٹ لگنے پر فطری و بدیہی فوری ری ایکشن اور پلاننگ کےتحت دوسرے کی جان، املاک یا آبرو پر حملہ آور ہونے کی باریکیوں کو واضح کیاگیا ۔پرامن یا جائز احتجاج کے بالمقابل بلوہ ، دنگا، فساد، مارکٹائی یا جلائو گھیرائو کی باریکی میں فرق کو واضح کیا گیا جس میں پلاننگ کو بنیادی اہمیت دی گئی، ارادے کی طرح۔

ہماری پاک و ہند تاریخ میں ایک بدترین مثال اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی ہے جس کے مرتکبین کو جان کے ساتھ ساتھ املاک کے اتلاف پر بھی ویسی ہی کڑی سزائیں سنائی گئیں۔ اس کے بعد یہاں احتجاج کی ایک پوری تاریخ ہے جس کا سرخیل مہاتما گاندھی کو خیال کیا جاتا ہے،جنہیں عالمی سطح پر نان وائیلنس یا عدم تشدد کا سمبل یا پرچارک تسلیم کیا گیا، آج اگر کسی بھی پرامن احتجاج پر کوئی لاٹھی اٹھاتا ہےتو پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے لیکن اگر کوئی اپنے احتجاج میں تشدد کی آمیزش کر بیٹھتا ہے اور ردعمل میں کوئی اسے کچل کر رکھ دیتا ہے تو دنیا کی خاموشی اسے سند جواز بخش دیتی ہے۔

ہمارے روایتی ذہن کی بدقسمتی ہے کہ یہ شعوری ترقی کے دوش بدوش نہ چل سکا ، کچھ لوگ تو آج بھی صدیوں پرانے اپنے جہادی نظریہ میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں بھی مسلم سماج میں جتنی اصلاحی تحریکیں اٹھیں وہ ہمیشہ براستہ احتجاج تشدد پر منتج ہوئیں یہاں ان کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں۔

بیسویں صدی پر ہی اکتفا کر لیں تو ایسی تحریکوں کی اتنی بھرمار ہے کہ طائرانہ تفصیل کیلئے بھی کتاب درکار ہے ۔ایک فقرے میں اس کا بیان یوں ہے کہ ان سب کی بربادی تشدد کی آمیز ش سے ہوئی اور ہو رہی ہے۔درویش کا دعویٰ ہے کہ عصر حاضر میں کوئی بھی عوامی تحریک تشدد کی آمیزش کے ساتھ کامیاب نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ وہ عوامی پذیرائی کے ساتھ اتنی ہمہ گیر ہو کہ پورے سسٹم کو لے ڈوبے اسی کو آج کی دنیا انقلاب کا نام دیتی ہے یا پھر اسے طاقتور ماورائی مسلح طاقت کی اشیر باد حاصل ہو۔تحریک پاکستان کا اگر حقائق اور سچائی کی کسوٹی پر جائزہ لیا جائے تو وہ بھی جلائو گھیرائو یا تشدد سے ہرگز پاک نہ تھی اگر عدم تشدد پر ایمان رکھنے والی کانگریس قیادت میں عقل ہوتی تو وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ٹھہرائو لاتی اور وہ لیگ یا بدیسی سرکار سے کمپرومائز کرتی مگر انہوں نے اقتدار کی حرص میں مقتدر حریفوں کے سامنے سرنگوں ہونا اور ملک تڑوانا قبول کر لیا اسی لئے ہمیں فریڈم ایٹ مڈنائٹ یا بیسویں صدی کے نصف کا انڈیا ایک لاوارث انڈیا دکھتا ہے اسی تاریکی سے خطے میں پھلائی گئی منافرت آج بھی جاری و ساری ہے۔قیام پاکستان کے بعد پہلا ایجی ٹیشن یا احتجاجی تحریک جسے درپردہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یا آشیرباد حاصل تھی اور اسی کی برکت سے یہاں مارشل لائوں کا باقاعدہ آغاز ہوا یا اسٹیبلشمنٹ سویلین اتھارٹی پر حاوی ہو گئی ۔یہ کہنا غلط ہو گا کہ پی این اے عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا تھی مگر اس کی کامیابی میں بنیادی فیکٹر جہاں جنا ح ثانی کا جبر تھا وہیں اس احتجاجی تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی ایک نوع سے ہمدردی حاصل تھی اور یہ امر واضح رہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ واحد ہمہ گیر عوامی تحریک تھی شاید اسی لئے سوچ میں تبدیلی آئی۔

ایم آرڈی کی تحریک بلاشبہ ہمہ گیر تو نہ تھی لیکن عوامی حمایت سے قطعی تہی دامن بھی نہ تھی اور اس میں تشدد کی آمیزش سے شاید کوئی بھی انصاف پسند شخص انکار نہیں کر سکتا، طاقتوروں کے اندر کی کسی پاکٹ سے اسے اشیرباد بھی حاصل نہ تھی اس لئے کچل کر رکھ دی گئی ۔یوں اسے اندرون ملک یا بیرون ملک کسی نوع کی کوئی ہمدردی یا حمایت حاصل نہ ہو سکی۔

اس امر میں کوئی شائبہ نہیں رہا کہ 9مئی کا ڈائریکٹ ایکشن نہ صرف تشدد یا جلائو گھیرائو سے معمور تھا بلکہ باضابطہ طور پر پری پلانڈ تھا جسے شک ہے وہ ڈاکو مینٹری ثبوتوں سے بڑھ کر پشاور سے لیکر لاہور تک پورے ملک میں عسکری اہداف پر ہونے والے منظم حملوں کی تفصیلات ملاحظہ فرمائے اس پر تشدد اور آج کا اصل ہدف یا ٹارگٹ موجودہ آرمی چیف کے خلاف بغاوت کو کامیاب کروانا تھا جس کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی بہت سی کڑیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی جاسکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہو گا کہ اس مشکل ٹارگٹ کا حصول ناممکن نہ تھا یہ ساری منصوبہ سازی کیونکر ناکام ہوئی اس پر بحث اگلی قسط میں۔ (جاری ہے)