روپے کی قدر میں استحکام

January 06, 2014

جن ممالک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے ان کی برآمدات، ترسیلات زر، غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے سکّے کی قدر مضبوط اور مستحکم رہتی ہے لیکن وہ ممالک جن کی معیشت کمزور ہوتی ہے، ان کی برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے رہتے ہیں جس کے باعث ان کے سکّے کی قدر گرتی رہتی ہے۔ پاکستان بھی آج کل اسی صورتحال سے دوچار ہے جس کے باعث معیشت کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے حکومت، صنعت اور عوام سب کو ہی نقصان پہنچتا ہے کیونکہ درآمد کی گئی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی سے ہمارے بیرونی کرنسی میں لئے گئے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک پر ان کی ادائیگی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے درآمد کی جانے والی اشیاء کی لاگت بڑھ جاتی ہے جس کا بوجھ صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنی برآمدی مصنوعات بنانے کیلئے خام مال مثلاً ڈائز، کیمیکل، پولیسٹر یارن وغیرہ درآمد کرنا پڑتے ہیں، ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے ہمارے درآمدی بلوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ البتہ اس سےبرآمد کنندہ کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ انہیں ڈالر کے مقابلے میں زیادہ روپے مل رہے ہوتے ہیں لیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے برآمدکنندگان آرڈر لینے کیلئے کرنسی کا یہ فائدہ اپنے خریداروں کو ڈسکائونٹ کی شکل میں دے دیتے ہیں۔
روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کو دیکھتے ہوئے حکومت کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ روپے کی قدر میں استحکام لائے۔ اس سلسلے میں وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک نے ڈالرائزیشن کے عمل کو روکنے اور سٹے بازوں کی حوصلہ شکنی کے لئے سخت پالیسی بیانات دیئے جس کے مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ یاد رہے کہ 6 دسمبرکو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر نچلی ترین سطح 2.963 بلین ڈالر تک پہنچنے کے بعد روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی تھی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 108.57تک گرگئی تھی جس کے پیش نظر سٹے بازوں نے روپے کی قدر 115 تک پہنچنے کی پیش گوئیاں کی تھیں لیکن وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے دعویٰ کیا کہ روپے کی قدر دوبارہ 98 تک آجائے گی۔ اس دوران پاکستان کو برطانوی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ سے 144 ملین ڈالر، اسلامی ترقیاتی بینک سے 137 ملین ڈالر اور دیگر مالیاتی اداروں سے 75 ملین ڈالر ملے اور مجموعی طور پر 505 ملین ڈالر کے اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر 12 سال کی کم ترین سطح 2.9 بلین ڈالر سے بڑھ کر 27 دسمبر کو اسٹیٹ بینک کے 3.657 بلین ڈالر اور کمرشل بینکوں کے 4.864 بلین ڈالر ہونے کی وجہ سے مجموعی ذخائر 8.526 بلین ڈالر تک پہنچ گئے جس سے روپے کی قدر میں استحکام آیا۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے مقامی بینکوں سے تقریباً 300 ملین ڈالر بھی خریدے ہیں جبکہ آئی ایم ایف نے بھی 6.7 بلین ڈالر کے مجموعی قرضے کی دوسری قسط 550 ملین ڈالر پاکستان کو ادا کی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کچھ مستحکم ہوئے ہیں جس کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر2% اور اوپن مارکیٹ میں 3% بڑھی اور روپیہ 105.5 کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ روپے کے مقابلے میں یورو، برطانوی پائونڈ، ڈالر اور خلیجی کرنسیوں کی قدر میں بھی کمی آئی ہے جس سے ملکی قرضوں میں 150 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ ڈالر کی گرتی ہوئی قدرکے پیش نظر برآمد کنندگان نے بھی تقریباً 400 ملین ڈالر کے ایکسپورٹ بلوں کی روکی گئی ادائیگیاں بیرون ملک سے منگوائیں جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہر سہ ماہی 1.5سے 2بلین ڈالر کی ضرورت ہے جس کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 600ملین ڈالر، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے 800 ملین ڈالر کے بقایا جات اور تھری جی لائسنس کی نیلامی سے تقریبا ایک بلین ڈالر کے حصول کیلئے اپنی کوششیں تیز کرے۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو FDI کے حصول کیلئے نجکاری کا عمل تیز کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ حکومت اپنے بینکوں ABL اور UBL جن کی نجکاری ہوچکی ہے، میں اپنے بقایا 12% حصص نجکاری کے ذریعے فروخت کرکے خسارے میں کمی لاسکتی ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال کے آخر تک ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16 بلین ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔
پاکستان میں جولائی سے نومبر 2013ء تک 330ملین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کی گئی ہے جو اسی دورانیے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 4.7% زیادہ ہے لیکن یورپی مارکیٹ میں جی ایس پی پلس کی سہولت ملنے سے امید کی جارہی ہے کہ 2014ء میں ملکی برآمد بالخصوص ٹیکسٹائل کی برآمد میں تقریباً ایک بلین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال ملکی ترسیلات زر میں 6.35% اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ہمیں 14بلین ڈالر سے زیادہ ترسیلات موصول ہوئی تھیں جن میں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب (3 ارب ڈالر) اور یو اے ای (2 ارب ڈالر) سے موصول ہوئیں جبکہ امریکہ سے (1.6 ارب ڈالر)، برطانیہ سے (1.4 ارب ڈالر)، خلیجی ممالک سے (1.2 ارب ڈالر)، ناروے، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان سے 752 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملی۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ایک بیان کے مطابق روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث کوئٹہ، اسلام آباد اور کراچی ایئر پورٹس کے ذریعے روزانہ تقریباً 25 ملین ڈالر غیر قانونی طور پر بیرون ملک اسمگل کیے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں مسلسل اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق روزانہ 25 ملین ڈالر کی اسمگلنگ 750 ملین ڈالر ماہانہ اور 9 بلین ڈالر سالانہ کا انخلا ہے جو موجودہ ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔ ایئر پورٹ پر متعین ایف آئی اے کے ایک ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایک شخص کو گزشتہ ایک سال کے دوران 352 دفعہ دبئی جاتے دیکھا۔ میرے خیال میں وہ شخص دبئی جاتے وقت غیر ملکی کرنسی اور واپسی پر بغیر کسٹم ڈیوٹی اشیاء ساتھ لاتا ہوگا کیونکہ کسی بھی پاکستانی کو بیرون ملک جاتے وقت قانونی طور پر 10 ہزار ڈالر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت ہے لیکن کچھ لوگ اس سہولت کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں جب میں نے گزشتہ ہفتے اپنے گھر پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے کے موقع پر گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور سے بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ حکومت نے مختلف ہوائی اڈوں پر غیر ملکی کرنسیوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے ہیں جس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھتے ہوئے سٹے باز اب اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کیا واقعی ڈالر کی قدر دوبارہ 98 روپے تک پہنچ سکتی ہے اور وہ اب ڈالر میں سٹے بازی سے گریز کررہے ہیں۔ سٹے بازوں کی سوچ میں یہ تبدیلی یقیناً وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کی ایک بڑی کامیابی ہے۔