پاکستان کی خارجہ پالیسی غلط مفروضے اور تنہائی

January 08, 2014

پاکستان کو دنیا میں دشمن پیدا کرنے میں کافی مہارت ہو چکی ہے۔ اسی مہارت کے تحت بنگلہ دیش حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی جس کے نتیجے میں وہاں کے کیبل آپریٹروں نے پاکستانی چینلوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کی حکومتی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس سلسلے میں داخلی سیاست کے نام نہاد تقاضوں کی بنا پر موقع پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کا احتجاج قابل فہم تھا مگر حکومتی پارٹی کا دوسرے ملک کے مبینہ داخلی معاملات میں مداخلت نما قرارداد میں حصہ لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔
اسی طرح کی طرز فکر نے پاکستان کو دنیا میں مکمل طور پر تنہا کر دیا ہے۔ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک اس سے شاکی ہیں۔ بھارت کے ساتھ تو روایتی چپقلش جاری ہے جس میں دونوں فریق برابر کے ذمہ دار ہیں۔ افغانستان میں نہ صرف پاکستان کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں بلکہ اس نے بھارت کے ساتھ اپنی سلامتی کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ اسی طرح ایران بھی پاکستان کے بارے میں شاکی ہے اور اس کے بھارت کے ساتھ زیادہ گہرے تعلقات ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھی پاکستان سے کافی نالاں ہیں۔ چین، خلیجی ریاستیں پاکستان کی دوست سمجھی جاتی ہیں لیکن ان کی دوستی پاکستان کو گہرے بحران سے نکالنے کے لئے کسی طرح بھی ممدو معاون نہیں ہیں۔
بعض لوگ تو مایوس ہوکر یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی شمالی وزیرستان میں بیٹھے ہوئے طالبان تشکیل دے رہے ہیں جن کا مقصد ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر تنہا کر دیا جائے تاکہ اس پر قبضہ آسان ہوجائے۔ عملی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی طالبان کے فکر کی عکاس ہے جس میں تدبیری اور بار آور سفارتی کامیابی کے بجائے نظریاتی بنیادوں پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اسی نظریاتی اساس کی بنیاد پر ہم ہنود و یہود کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ازلی طور پر پاکستان کے دشمن ہیں۔ یہ نظریاتی اساس پاکستان میں مذہبی اتنہا پسندی اور فرقہ واریت کی آئینہ دار ہے اور دانستہ یا نا دانستہ خارجہ پالیسی کے بنانے والے اس سے متاثر ہیں یا خائف ہو کر اس تنگ نظری سے باہر نہیں نکلتے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے اپنی کتاب ’’افغانستان اور پاکستان : تصادم، انتہا پسندی اور عہد جدید سے مزاحمت‘‘ میں بڑے احسن اندازمیں پاکستان کے اندر مروجہ سیاسی اور نظریاتی اساس کو خارجہ پالیسی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ ویسے تو مصنف نے جامع انداز میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو خارجہ پالیسی کے متاثر کرنے پر روشنی ڈالی ہے لیکن اس کی ایک عملی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح’’مزار شریف پر طالبان کے حملے میں گیارہ ایرانی‘‘سفارتکار مارے گئے جو غالباً انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار تھے۔ اس واقعے پر ایران نے پاکستان اور طالبان کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا‘‘ آج بھی بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں فرقہ پرست مسلح جتھے ہزارہ برادری کے لوگوں کو قتل کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔
جناب ریاض محمد خان نے پاکستان کی افغان پالیسی پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور اسے غلط مفروضوں پر مبنی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں اسٹریٹجک گہرائی حاصل کرنے کا مفروضہ سراسر بے بنیاد ہے اٖفغانستان میں پاکستان کے لئے ’’اسٹریٹجک گہرائی‘‘ تلاش کرنا ایک موضوعی نظریہ ہے جو مداخلت اور سر پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے‘‘ یعنی افغان سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسریٹجک گہرائی کیلئے ان کے ملک میں مداخلت پر مائل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ...ایسی غیر ذمہ دار باتوں سے کہ کابل میں دوستانہ حکومت کی پاکستانی خواہش اس کا حق ہے کیونکہ پاکستان نے افغانستان کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اس قسم کا دعویٰ افغان دانشوروں اور اشرافیہ میں اشتعال اور منفی ردعمل پیدا کرتا ہے‘‘۔
اسٹریٹجک گہرائی کو بے معنی بتاتے ہوئے ریاض محمد خان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے زیادہ تر بڑے شہر مشرقی سرحدوں کے نزدیک ہیں۔ ایک دوست افغانستان پاکستان اور بھارت کے درمیان جغرافیائی فاصلہ پیدا نہیں کر سکتا‘‘۔ انہوں نے اس تصور کو بھی غلط بتایا کہ پاکستان جنگ کی صورت میں اپنے اسٹریٹجک اثاثے افغانستان منتقل کردے کیونکہ ایک تو یہ اثاثے مثلاً جنگی طیارے وغیرہ جنگ میں استعمال کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لئے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان اثاثوں کو محفوظ رکھنے کے لئے بہت بڑے انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے جو افغانستان میں ہو نہیں سکتا۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ’’پاکستان میں ایسے مقامات موجود ہیں جو ہماری مشرقی سرحدوں سے اتنی ہی دور ہیں جتنا کہ کابل یا افغانستان کا کوئی اور شہر‘‘۔
پاکستان میں دنیا کے اکثر ممالک کے بارے میں منفی مفروضات قائم ہیں۔ انہی غلط مفروضات کی بنا پر پاکستان بھارت سے لے کر امریکہ تک کسی بھی بڑے ملک سے بامعنی تعلقات قائم کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان کی داخلی سیاست میں اسی طرح کے غلط مفروضات عام ہیں مثلاً یہ مفروضہ کہ طالبان امریکہ کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں پیدا ہوئے یا وہ پاکستان کے اس لئے دشمن ہیں کہ پاکستان افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی حملے سے پہلے طالبان کی کابل پر حکومت تھی اور وہ پاکستان میں طالبانائزیشن کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ تب پاکستان کے حکمرانوں نے ان کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ امریکی حملے کے بعد پاکستان کو طالبان کے بارے میں بظاہر رویہ بدلنا پڑاجس کی وجہ سے طالبان نے پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ حقیقت میں پاکستان نے طالبان کو اس وقت تک نشانہ نہیں بنایا تھا جب تک مولانا فضل اللہ نے سوات پر قبضہ کرکے پاکستان کے دارالحکومت کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان پاکستان پر اپنا من پسند شرعی نظام نافذ کرکے اسے جمہوری ملک کے بجائے ایک امارت بنانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اگر امریکی افغانستان سے نکل بھی جائیں تو طالبان پاکستان کے موجودہ نظام کو تسلیم کرکے صلح جوئی پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ آخر کار پاکستان کا طالبان کے ساتھ فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہو گا۔ غرضیکہ باقی مفروضوں کی طرح پاکستان میں طالبان کے بارے میں بھی انتہائی بے بنیاد مفروضہ قائم ہے۔اگر پاکستان غلط مفروضوں کی بنیاد پر اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی مرتب کرتا رہا تو وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار رہے گا اور اندرونی سیاست میں انارکی بڑھتی جائے گی۔