چوہدری صاحب، اسے انکار ہی سمجھئے

January 21, 2014

اتوار کی صبح بنوں میں طالبان نے سیکورٹی فورسز کے قافلے پر بزدلانہ حملہ کیا جس میں 20 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ اس خوفناک حملے کی اطلاع ملنے پر وزیراعظم نے اپنا دورہ سوئٹزرلینڈ منسوخ کر دیا اور عسکری قیادت سے صلاح مشورے میں مصروف ہو گئے۔ عسکری اور سیاسی قیادت کا متوقع ردعمل بھانپتے ہوئے طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اسی روز واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حکومت سے مشروط مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تاہم اگلی ہی صبح راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹر کے قریب ایک خودکش دھماکے میں فوجی اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد شہید ہو گئے۔ طالبان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ اپنے خلاف عوامی جذبات کو مجتمع ہونے سے روکا جائے۔ وہ ریاست اور شہریوں کے خلاف اس محاذ آرائی کو ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے کے نمونے پر جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاوقتیکہ ریاست اور عوام کا حوصلہ جواب دے جائے اور وہ طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ طالبان کے حامی عناصر حسب توقع ایک مرتبہ پھر طالبان کی اس پیشکش کو جھنڈے پر چڑھا کر عوام کو گمراہ کرنے نکلیں گے۔ چنانچہ ان کے جھانسے میں آنے کے بجائے اس مفروضہ پیشکش کا زیر متن پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ طالبان کے ترجمان کہتے ہیں کہ بنوں میں پاکستانی فوج کے جوانوں پر ولی الرحمٰن کی موت کا انتقام لینے کے لئے حملہ کیا گیا۔ کیا اپنے ساتھیوں کی موت کا بدلہ لینے کا حق صرف طالبان کو حاصل ہے۔ کیا ریاست اپنے فوجی جوانوں اور شہریوں کی شہادت پر ردعمل دینے کا حق نہیں رکھتی؟ ترجمان نے کہا کہ اگر حکومت اپنا اخلاص ثابت کر دے تو وہ بامعنی مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ اخلاص تو ایک موضوعی تاثر ہے۔ ’بامعنی مذاکرات‘ سے غالباً طالبان کا مفہوم وہی ہے جو سابق چیف جسٹس نے ’بامعنی مشاورت‘ کو دیا تھا یعنی ان کی بات مان لی جائے تو مذاکرات بامعنی ہیں ورنہ بے معنی۔ طالبان ترجمان کے مطابق پاکستانی ریاست نے قبائلی علاقوں میں فوج بھیج کر یہ جنگ شروع کی تھی۔ دنیا کا کون سا قانون کسی ریاست کو اپنی سرحدوں کے اندر کہیں بھی فوج تعینات کرنے سے روکتا ہے؟ ریاست کو پورا حق ہے کہ جہاں چاہے اپنے مفاد میں فوج تعینات کرے۔ ریاست کو کسی برخود غلط گروہ کے خود ساختہ اصول و ضوابط کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد قبائلی علاقوں کو بدستور علاقہ غیر کے طور پر برقرار رکھنا اور وہاں پاکستانی قوانین کا اطلاق نہ کرنا ایک غلطی تھی۔ اس سے کچھ مفروضہ تزویراتی مفادات کا تحفظ مقصود تھا لیکن عملی طور پر یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا رہا۔ برطانوی ہند کے ظالمانہ قوانین کو برقرار رکھ کے اس خطے کا معاشی اور سیاسی مفاد تباہ کیا گیا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں یہ خطہ استعمال کیا تو پاکستان کو امریکہ اور ایک عرب ملک کی حمایت حاصل تھی۔ نائن الیون کے بعد کسی بیرونی طاقت کی طرف سے ایسی کسی مدد کا امکان موجود نہیں تھا۔ طالبان اور ان کے حامی چاہتے تھے کہ پاکستانی ریاست گزشتہ پالیسیوں پر قائم رہے، پاکستان نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ ہر ریاست کو اپنے مفاد میں فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ طالبان کے خلاف جنگ پاکستان نے شروع نہیں کی۔ 2002ء میں اسلام آباد، بہاولپور، ٹیکسلا اور مری میں حملے کر کے یہ جنگ شروع کی گئی۔ طالبان سمیت کسی گروہ کو یہ حق نہیں کہ وہ پاکستانی ریاست پر اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی مسلط کرے۔
جنرل حمید گل نے حکومت میں دو مختلف بیانوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے کہ چوہدری نثار علی طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں جب کہ اسحاق ڈار مبینہ طور پر امریکہ کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحاق ڈار کا امریکہ سے تعلقات کو اہمیت دینا قابل فہم ہے کیونکہ پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کی نزاکت وزیر خزانہ سے بہتر کون جانتا ہے تاہم حمید گل نے ایک تیسرے بیانیے کا ذکر نہیں کیا جس کے سرخیل وہ خود ہیں اور جس میں عمران خاں، منور حسن اور دفاع پاکستان کونسل شامل ہیں۔ یہ تیسرا بیانیہ ہر مسئلے کی تان امریکہ پر توڑتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستانی عوام میں امریکہ دشمنی کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان کے افعال سے توجہ ہٹائی جائے۔ اس تیسرے بیانیے کے علمبرداروں کے لئے طالبان کا طرز سیاست اور تصور عالم قابل قبول ہے لیکن پاکستانی ریاست اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ طالبان کے حامیوں کو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی کہ ایک فرقے کو چھوڑ کر باقی تمام مذہبی گروہوں اور فرقوں پر زندگی تنگ کر دی جائے، عورتوں کا جینا حرام کر دیا جائے، علم کے دروازے بند کر دیئے جائیں، فنون کو دفن کر دیا جائے۔ زراعت، صنعت اور تجارت کے بجائے جنگ کو معیشت کی بنیاد بنا کر پوری دنیا کے خلاف محاذ کھول دیا جائے۔ پاکستان کی ریاست اس کی وفاقی اکائیوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہے۔ کوئی حکومت اس معاہدے کو رہن رکھنے یا مسخ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو شہریوں کی وفاداری کا حق کھو بیٹھے گی۔ پاکستان کے لوگ ریاست اور منتخب حکومتوں کے وفادار ہیں۔ کوئی حکومت عوام سے مطالبہ نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے انسانی اور تمدنی حقوق کسی خدائی فوجدار ٹولے کے سامنے دان کر دیں۔ پاکستان مذہبی، لسانی اور ثقافتی طور پر متنوع ملک ہے۔ اس پر کسی ایک گروہ کی آمریت مسلط کرنے سے خطے اور دنیا میں ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ طالبان سے کسی مفروضہ سمجھوتے کی صورت میں بھی پاکستان کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں کیونکہ طالبان ایسی کامیابی سے جواز حاصل کر کے اپنے مطالبات کا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں گے۔ پاکستانی ریاست سے کوئی پائیدار سمجھوتہ طالبان کے نظریاتی نصب العین سے متصادم ہے۔ ان کا حقیقی مقصد پاکستان میں قدم جما کر عالمی غلبے کیلئے کوشش کرنا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے لڑرہے ہیں۔ یہ وضاحت انہوں نے ضروری نہیں سمجھی کہ دوسرے مسلمان فرقے ان کے تصور اسلام کا حصہ ہیں یا نہیں نیز یہ کہ طالبان کو اسلام کی نمائندگی کا اختیار کیسے حاصل ہے۔ مذہب نہ تو سیاسی فریق ہوتا ہے اور نہ کارپوریٹ ادارہ۔ کوئی شخص کسی دوسرے فرد یا گروہ کے عقائد کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی مذہبی گروہ کسی شخص کو متفقہ طور پر اپنا رہنما مان لے تب بھی آئین اور قانون کی نظر میں اس کے ارکان کی انفرادی شناخت ساقط نہیں ہوتی۔ مذہب کے نام پر پاکستان پر بالادستی کے خواہشمند گروہوں نے ہماری تاریخ میں قدم بہ قدم آئینی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں اپنے جمہوری استحقاق سے زیادہ حصہ حاصل کیا ہے۔ اس مکتبہ فکر نے مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد کی مدد سے قائداعظم کے تصور پاکستان کو پسپا کیا۔ 1970ء کے انتخابات میں عوام نے دائیں بازو کو شکست دی۔ اس کے باوجود ان کی قوتوں نے مذہبی اشتعال انگیزی کا حربہ استعمال کر کے 1973ء کے آئین میں غالب شناخت ہتھیا لی۔ 1977ء میں آئین کو درپیش پہلے ہی امتحان میں یہ طبقات ضیاالحق کے ساتھ جا بیٹھے۔ امتیازی قوانین اور آمرانہ پالیسیوں کی حمایت کرکے عمرانی معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس کے بعد بھی یہ لوگ وقفے وقفے سے جسد اجتماعی کی بوٹیاں نوچتے رہے۔ پچھلے دس برس سے یہ گروہ اس امید پر طالبان کی گاہے درپردہ اور گاہے اعلانیہ حمایت کر رہے ہیں کہ اس مجادلے کے نتیجے میں انہیں پاکستان پر ایسی بالادستی مل جائے گی جو انہیں ووٹ کے ذریعے ملنے کی توقع نہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے فرمایا ہے کہ مذاکرات سے انکار کرنے والوں سے جنگ ہو گی۔ پنجاب کی ایک لوک کہانی میں طاقتور زمیندار ایک درخواست کرنے والے مزارعے کی خوب پٹائی کراتا ہے۔ مزارع پٹنے کے بعد اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتا ہے اور کہتا ہے ’’چوہدری صاحب تو پھر میں آپ کی طرف سے انکار ہی سمجھوں‘‘۔ چوہدری نثار صاحب، بنوں اور راولپنڈی میں سیکورٹی فورسز پر حملوں کو طالبان کی طرف سے انکار ہی سمجھئے۔