1960ء میں فرانس نے کانگو کو آزاد کیا اس کے بعد وہاں اپنا سفیر تعینات کر دیا۔ ایک مرتبہ فرانسیسی سفیر شکار کی تلاش میں کانگو کے جنگلات میں نکل گیا۔جنگل میں چلتے چلتے سفیر کو دور سے کچھ لوگ نظر آئے۔ وہ سمجھا شاید میرے استقبال کیلئے کھڑے ہیں۔ قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آدم خور قبیلہ ہے۔ انہوں نے فرانسیسی سفیر کو پکڑ کر ذبح کیا۔ اس کی کڑاہی بنائی اور سفید گوشت کے خوب مزے اڑائے۔فرانس اس واقعے پر سخت برہم ہوا اور کانگو سے مطالبہ کیا کہ وہ سفیر کے ورثاء کو (کئی) ملین ڈالر خون بہا ادا کرے۔ کانگو کی حکومت سر پکڑکر بیٹھ گئی۔ خزانہ خالی تھا، ملک میں غربت و قحط سالی تھی۔ بہرحال کانگو کی حکومت نے فرانس کو ایک خط لکھا، جس کی عبارت کچھ یوں تھی، کانگو کی حکومت محترم سفیر کے ساتھ پیش آئے واقعے پر سخت نادم ہے، چونکہ ہمارا ملک خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، لہٰذا غور و فکر کے بعد ہم آپ کے سامنے یہ تجویز رکھتے ہیں کہ ہمارا جو سفیر آپ کے پاس ہے، آپ بدلے میں اسے کھا لیں۔ والسلام!
پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھے، جس کا مضمون کچھ یوں ہونا چاہئے، پچھلے 75 برسوں میں ہماری اشرافیہ نے جو قرضے لئے ہیں، وہ آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں، ہم آپ کے قرضے تو واپس نہیں کرسکتے۔ لہٰذا گزارش ہے کہ ہماری اشرافیہ کے بینک بیلنس، اثاثے اور بچے مغربی ممالک میں ہیں، بدلے میں آپ وہ رکھ لیں۔
دوسری جانب یہی حال کچھ اسلامی ممالک کا ہے کہ یہودی قران پاک کی بے حرمتی کرتے ہیں لیکن کوئی بھی مسلمان ملک احتجاج نہیں کرتا اور اس وجہ سے آہستہ آہستہ مسلمان ملکوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچانا شروع کردیا گیا ہے۔ جس کی مثال افغانستان، ایران، عراق، فلسطین اورانڈونیشیا ہیں۔ پاکستان کے ایک کرکٹر خالد لطیف نے آواز اٹھائی تو اس پر 3 سال بعد مقدمہ چلا کر بغیر سنے اس کو 12 سال کی قید سنادی گئی۔ اس پر بھی کسی مسلمان ملک نے آواز نہیں اٹھائی۔ہم جو کبھی ایشیا کا ستارہ کہلاتے تھے آج ہم ڈھانچے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج ہمارا ٹریڈ مارک کشکول ہے، جو ہم نے اٹھایا ہوا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں مکمل طور پر جکڑے جا چکے ہیں۔
ایسے حالات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی اور لاہو ر کے تاجروں سے اہم ملاقات کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، فوج کرپٹ مافیا کے پیچھے جائے گی، آرمی چیف نے کہا کہ ایرانی تیل اسمگل ہوکر کراچی میں بک رہا ہے، انہوں نے کور کمانڈر کراچی کو حکم دیا کہ اس پر کارروائی کریں اور ایک لیٹر بھی ایرانی تیل اب نہیں بکنا چاہئے، اسمگلنگ کو زیرو کریں، آرمی چیف نے تاجروں کو بتایا کہ انہوں نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ ہمیں آپ سے ایک ارب ڈالر نہیں 25ارب ڈالر چاہئیں،آپ زراعت اور مائننگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں، شراکت داری صوبائی حکومتوں کے ساتھ کریں، آرمی چیف نے بتایا کہ وہ سعودی عرب کے بعد یو اے ای گئے، 25 ارب ڈالر کا سرمایہ کاری پلان ایم بی ایس کے ساتھ بھی ڈسکس کیا،آرمی چیف پرامید ہیں کہ نہ صرف سعودی عرب، یو اے ای بلکہ چائنہ، قطر اور کویت سے بھی بھاری سرمایہ آئےگا، آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں جو بھاری سرمایہ کاری آرہی ہے اس سے ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی، کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کو قتل کررہا ہے، آرمی چیف نے کراچی کےتاجروں سے کہا آپ کراچی کے کرپٹ سسٹم کی بات کررہے ہیں؟ہم اس سسٹم کے پیچھے جائیں گے اور اس کا خاتمہ کریں گے، تمام غیر رجسٹرڈ افغانیوں کو واپس بھیجا جائے گا، میں سوشل میڈیا پر ٹاسک فورس بنا رہا ہوں، جتنے بھی keypad warriors ہیں ان کو ہم کنٹرول کریں گے، موجودہ مایوس کن معاشی حالات میں آرمی چیف سے ملاقات خوشگوار ہوا کا جھونکا تھا،آرمی چیف سےسعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے کہا کہ پاکستان میں بیوروکریسی کے بہت مسائل ہیں،ہم پاکستانی بیوروکریسی کی وجہ سے سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹے،آرمی چیف کلیئر تھے کہ ہم کرپشن کو ختم نہ بھی کر سکے تو کم ضرور کر دیں گے، مجھے لگتا ہے کہ محمد بن سلمان 9 ستمبر کو 4،5 گھنٹے کیلئے پاکستان آ رہے تھے کیوں نہیں آئے،محمد بن سلمان نے آرمی چیف سے کہا کہ آپ اپنے ملک کی بیوروکریسی کو نکیل ڈالیں، آرمی چیف نے کہا یہ سرمایہ کاروں کو بہت تنگ کرتے ہیں، ہم کرپشن کو روکیں گے، ان کی باڈی لینگویج، پچھلے آرمی چیفس سے مختلف تھی،آرمی چیف مکمل ہوم ورک کرکے ہمارے پاس آئے تھے، آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ نقصان کرنے والے اداروں کو فوری طور پر پرائیوٹائز کرنے جارہے ہیں، آرمی چیف کے حکم پر نگراں حکومت نے (ایف آئی اے) کو امریکی ڈالر، چینی، کھاد اورپٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے اختیارات تفویض کردیےہیں۔نگراں وزیرِ داخلہ کی زیر صدارت اجلاس کے بعد ایف آئی اے کو کارروائیوں کے احکامات جاری کئےگئے جس کا مراسلہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔