پیارے جنرل ضیاء الحق ایسا نوے روز والے انتخابات کا خوف دل میں بٹھا کر چلے گئے کہ شبِ وعدہ پر شبِ فراق کا ڈر ہی سیاسی رگ و پے سے نہیں نکلتا۔ چلئے، کفر تو ٹوٹا خدا خدا کر کے، الیکشن کا ہفتہ ہی سہی کچھ تو سیاسی رؤیت ہلال کمیٹی کو نظر آیا۔ جنوری کا آخری ہفتہ مسلم لیگ نواز، تحریکِ انصاف پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے امتحانی ہفتہ ہوگا۔’’امتحانی ہفتہ‘‘پر چند دن کا اکتفا ’’روزِ حساب‘‘ بھی جلد بن جائے گا ، ذرا تسلی رکھئے!
پیپلزپارٹی شادیانے بجا رہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی منشاء پوری ہوگئی 'دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے، اور ہم یہ نہیں کہتے کہ 'ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت، ۔ بہرحال یہ ضرور کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی مانگ اور خواہش میں دم تھا مگر تحریک انصاف ابھی مطمئن نہیں، ان کے دل کو دھڑکا سا لگا ہے کہ ہنوز دلی دور است جبکہ اے این پی کا خیال ہے 90 دن کی آئینی حد کو مدنظر رکھا جائے، اسی قید کی بات قیدی والے بھی کر رہے ہیں، یہ تو فیصلے کو چیلنج کرنے کی نوید سنا چکے، فقیری خیال ہے انہیں اب الیکشن کی طرف جانا چاہئے ، کسی خوش فہمی کی جانب نہیں کہ اب کے بار’’سلیکشن‘‘ کا معیار ان کے افتخار کی پہنچ سے بہت باہر ہوچکا۔ خواہ مخواہ ضد کا فائدہ نہیں ، کم از کم نگرانوں کی لمبی نگہبانی کا تاثر تو گیا گھاس چرنے۔ ورنہ نگران حکومتی مخملی بستر پر لمبی تان لیتے تو امیدواران کے ہاتھ کیا لگتا سوائے جدوجہد کے ؟جی، کچھ لوگ تو اس لئے بھی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ہیں کہ ڈسکہ الیکشن والی دُھند میں انہیں تارے اور آئینہ بیک وقت دکھا دیا گیا حالانکہ ان لوگوں کی اپنی حکومت تھی۔ ہاں ہم یہ بھی نہیں بھولے کہ عدم اعتماد کی فضا اور مہنگائی کی ہوا نے خان کو پھر مقبولیت کا کپتان بنا دیا۔ اور یہ مقبولیت ہمارا المیہ ہے، ہماری سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مقبولیت کا مطلب پاکستان میں بس ’’مقبولیت‘‘ہوتا ہے جس کیلئے حقیقت کا پیرہن ضروری نہیں۔ کیونکہ ہمارے من کو ازل سے اپنا چور عزیز اور مخالف پارٹی کا چور اُچکا لگتا ہے۔ بس اتنی سی پولیٹیکل سائنس ہے ہماری۔ سائنس اگر سطحی ہو تو لازماً’’پُٹھی‘‘ پڑ جاتی ہے جو پڑی ہوئی ہے۔ کوئی ہم سے پوچھے، تو ہم سکندر سلطان راجہ کی صلاحیتوں کے پہلے ہی قائل اوپر سے ڈاکٹر سید آصف حسین جیسے پرعزم اور محنتی شخص کی بطورِ اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن میں آمد نے مثبت توقعات میں اضافہ کردیا ہے۔
مسئلہ یہ کہ ہر سیاست دان نے بذریعہ جمہوریت یا براستہ جمہوریت کے بجائے ایک الگ راستہ و براستہ بنا رکھا ہے کہ منزل تک پہنچنا ہے اور منزل اسلام آباد میں لہلہاتا اور جگمگاتا وفاق ہے۔ دوسری طرف اس وفاق تک پہنچنے کا راستہ بلاول بھٹو کو مل رہا ہے نہ آصف زرداری کو۔ اور مشکل یہ بھی کہ کسی راہ پر کسی مقام پر ان کیلئے ہری جھنڈی لے کر کوئی نہیں کھڑا۔ کچھ مشکلات تو میاں نواز شریف کیلئے آتی جاتی رہتی ہیں اسی ڈگر پر اب خان بھی ہیں کہ ایک پیارے کو سُلانے کیلئے ایک پیارے کو جگانا پڑتا ہے۔ خان کو شکست دینے کیلئے نوازشریف ناگزیر ہو چکے اور نواز شریف کو روکے رکھنے کیلئے عمران خان ضروری ہیں۔ دونوں میں مشترک یہ کہ پچاس فیصد سے زائد آبادی والے صوبہ میں دونوں مقبول ہیں، نواز شریف اپنے ترقیاتی قد و قامت کے سبب اور خان اپنے بیانیہ کی بدولت۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا پنجاب میں وہ مقام نہ بن سکا جو ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کا تھا۔ اگر پیپلزپارٹی یہی ڈھنڈورا پیٹتی رہے گی کہ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ نے کبھی قدم نہیں جمانے دئیے، تو لکھ لیجئے سانحہ 9 مئی جیسوں کو آگے جاکر قدم جمانے دئیے جائیں گے ، آخر آپ کے کیوں نہیں؟ اس لئے نہیں کہ آپ کے پورے پنجابی میڈیا کا نام قمر زمان کائرہ، آپ کی امید صرف ندیم افضل چن، آپ کا شہر صرف مظفر گڑھ، آپ کا روحانی پیشوا صرف یوسف رضا گیلانی، آپ کی وضع داری صرف راجہ پرویز اشرف اور آپ کا یقین صرف مخدوم احمد محمود! یا تو یہ سب نئے پیدا کیجئے یا ان سب اکابر کو چار سے ضرب دیجئے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ سن 2008 میں جن پنجاب کے سات آٹھ رہنماؤں کو شہباز شراکت داری سے وزیر مشیر بنایا، ان پر ریسرچ کی؟ کون تھے؟ اب کہاں ہیں؟ جو ایک دو بچے ہیں وہ کسی کام کے یا جیتنے کے قابل بھی ہیں؟ کیا بلاول ہاؤس لاہور کے مینارے ہر کوئی دوربین اور کسی کمرے میں کوئی خوردبین ہے جو ان حلقوں پر نظر اور ان کے سیاسی خلیوں پر چشم بینا رکھ سکے؟ آپ کو کوئی سعید غنی، کوئی ناصر شاہ اور کوئی مرتضیٰ وہاب پنجاب میں نظر آتا ہے؟ کوئی شک نہیں منظور چوہدری اور رانا فاروق سعید جیسے کچھ اور ابھی ہیں جو پیپلزپارٹی کی امید ہیں ، لاہور سے نوید چوہدری سا اثاثہ، حافظ غلام محی الدین سے دل جلے اور عارف خان جیسے فولادی کارکن کوکوئی قربت بخشی؟ ممکن ہے ہم ہی غلط ہوں مگر گوجرانوالہ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ یا فیصل آباد سے کسی قابل ذکر لیڈر کا کوئی نام بتا سکتے ہیں؟ ٹوبہ ٹیک سنگھ، میانوالی، بھکر ، بہاولپور و بہاولنگر سے کوئی سیاسی قد آور شخصیت؟
یہ تو بلاول بھٹو کی آئینی اور جمہوری تربیت ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ رکھا کہ الیکشن کوئی بھی لے جائے لیکن الیکشن کا ہونا ضروری ہے۔ ہاں، یہ آصف علی زرداری کی بھی ناقابلِ تسخیر مفاہمت پسندی اور حکمتِ عملی ہے کہ پیپلزپارٹی کا جمہوری شملہ اونچا ہے مگر پنجاب سے زرداری کو ویسے ہم نوا نہیں ملے جیسے آزاد جموں و کشمیر ، گلگت-بلتستان اور بلوچستان میں حلقوں کے تناظر میں زرخیز ہیں صرف تاریخ ہی سے نہیں چمٹے ہوئے محنت بھی کرتے ہیں! (کے پی کا تذکرہ پھر سہی) ۔ پیپلزپارٹی والو سچ تو یہ ہے کہ اسلام آباد کے اقتدار کو پانا ہے تو پنجاب کی حقیقت کو پہلے پانا ہوگا اور وہ بھی بہانے بالائے طاق رکھ کر!