گزشتہ دنوں بجلی کے نرخوں میں اضافے نے پورے ملک میں صارفین کو کرب میں مبتلا کردیا ہے اور ملک گیر احتجاج کے باوجود IMF معاہدے کی وجہ سے بجلی کے نرخوں میں کمی نہیں کی جاسکی جس کی ایک وجہ حکومت کے مہنگے آئی پی پیز معاہدے ہیں جو ملک کے پاور سسٹم پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال رہے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تجویز دی تھی کہ جو آئی پی پیز معاہدے ختم ہورہے ہیں، اُن کی تجدید نئی شرائط پر کی جائے تاکہ ہم کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی سے بچ سکیں اور حکومت مقابلاتی نرخوں پر بجلی خریدے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے میری تجاویز پر عملدرآمد کیلئے مشاورت شروع کی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی دوسری وجوہات میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں ترسیل اور تقسیم کے نقصانات، بجلی کی چوری، بلوں کی عدم وصولی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، مہنگے امپورٹڈ فیول سے بجلی کی پیداوار، کچھ حکومتی ملازمین کو مفت بجلی اور سبسڈی دینا شامل ہے جس کا بوجھ غریب صارفین سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے وصول کیا جارہا ہے۔
قارئین! اس وقت ملک میں 10بجلی تقسیم کرنے والی حکومتی کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان کی کمپنیوں میں 100ارب روپے کا نقصان اور بجلی کی چوری ہورہی ہے جبکہ پشاور، حیدرآباد، کوئٹہ، سکھر، قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں بجلی کے نقصانات اور چوری 489 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے اور اس طرح تقریباً 589 ارب روپے سالانہ نقصان بجلی چوری کی وجہ سے ہورہا ہے۔ بجلی ترسیل کمپنیوں میں 277000 نئے کنکشنز جبکہ صرف لاہور کی کمپنی میں 92000 نئے کنکشنز کی درخواستیں التواء کا شکار ہیں۔ نگراں حکومت نے بجلی چوروں کے خلاف مہم شروع کی ہوئی ہے اور بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں انتظامی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بجلی سپلائی کمپنیوں کی نجکاری کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس میں کمپنیوں کے حصص اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے فروخت کئے جائیں گے۔ ان کمپنیوں کی نجکاری اور نجی شعبے کے حوالے کرنے سے پہلے ہم پاکستان کی سب سے بڑی بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے الیکٹرک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں جس کی نجکاری سے ہمیں کیا فائدہ پہنچا اور کمپنی کو ایسے کون سے پرانے مسائل کا سامنا ہے جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے تاکہ کے الیکٹرک کو نئی سرمایہ کاری سے منافع بخش بنایا جاسکے۔ KESC سے میرا پرانا تعلق رہا ہے اور 2005میں نجکاری کے وقت میں سائٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین کی حیثیت سے KESC کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تھا۔ اس سے قبل بینظیر بھٹو نے مجھے پرائیویٹ سیکٹر سے KESC کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 3سال کیلئے نامزد کیا تھا۔ اس دور میں کراچی میں شدید لوڈ شیڈنگ کی جارہی تھی اور حکومت نے نئے کنکشنز پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ 1994 میں بینظیر حکومت نے IPPs سے بجلی خریدنے کے معاہدے کئے، KESC میں میٹرز اور کیبل کی سپلائی پر اجارہ داری تھی جسے بورڈ نے ختم کیا، بجلی کی چوری روکنے کیلئے Insulated کیبلز متعارف کرائے گئے اور دیگر اصلاحات سے بالآخر 2005 میں KESC کی نجکاری کی گئی تاکہ KESC میں نئی سرمایہ کاری کرکے اسے منافع بخش ادارہ بنایا جاسکے۔ 2012میں KESC کا نام تبدیل کرکے کے الیکٹرک کردیا گیا۔ آج کے الیکٹرک کے 3.4 ملین صارفین ہیں اور ادارے کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش 2100 سے بڑھ کر 4000 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ بجلی کی ترسیل کے نقصانات 34 فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد تک ہوگئے ہیں۔ کمپنی نے بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری کیلئے 474 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے شہر کے 70 سے 75 فیصد علاقے بالخصوص صنعتوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی۔
کے الیکٹرک 2030تک 1182میگاواٹ متبادل توانائی سے سستی اور صاف بجلی پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں سورج سے 900میگاواٹ، ہوا سے 200میگاواٹ اور پانی سے 82میگاواٹ بجلی شامل ہوگی جو کے الیکٹرک کی مجموعی پیداوار کا 28فیصد ہوگا جبکہ 72فیصد بجلی تھرمل ذرائع سے پیدا کی جارہی ہے جس میں روزانہ 1000میگاواٹ بجلی واپڈا سے لینا شامل ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کے الیکٹرک کو دیگر بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے سستی بجلی خریدنے کی اجازت دے تاکہ کے الیکٹرک اپنی بجلی کی اوسط لاگت کم کرسکے۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک کے نجکاری سے قبل کے کچھ مسائل ابھی تک حل نہیں کئے جاسکے ، جس سے بیرونی سرمایہ کار پریشان ہیں۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری کونسل ،جو بیرونی سرمایہ کاروں کے مسائل حل کرنے کا ایک مضبوط اور موثر فورم ہے، کے ذریعے کے الیکٹرک کے پرانے مسائل حل کئے جائیں۔
اگر ہم پاکستان میں نجکاری کئے گئے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ PTCL، حبیب بینک، MCB، UBL اور الائیڈ بینک جیسے بڑے اداروں نے نجکاری کے بعد بہتر کارکردگی دکھائی اور آج وہ ریکارڈ منافع کمارہے ہیں جس کی میرے نزدیک اہم وجہ ان اداروں کی نجکاری سے پہلے مسائل کا نہ ہونا ہے اور نئی انتظامیہ پروفیشنل مینجمنٹ، نئی سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی سے اداروں کو پروفیشنل طریقے سے چلارہی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اور کے الیکٹرک میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی بھی تنظیم نو کرکے جلد از جلد ان کی نجکاری کی جائے اور کے الیکٹرک کے بقایا مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔