ملک کے مختلف شہروں میں آشوب چشم تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چند روزمیں صرف پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں 1300سے زیادہ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ تشویش کا باعث یہ ہے کہ علاج کیلئے استعمال ہونے والے غیر معیاری انجیکشن ایواسٹن سے کئی مریضوں کی بینائی چلی گئی۔ اب تک لاہور، قصور، ملتان اور بہاولپورمیں متاثرہ افراد کی تعداد 77 ہوگئی ہے۔ وزارت صحت نے فوری طور پر اس انجیکشن پر پابندی لگادی ہے ۔ پنجاب کے 6اضلاع میں 11 ڈرگ انسپکٹر معطل کر دیئے گئے ہیں۔ ناقص انجیکشن کے استعمال کو لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے۔ پنجاب کے وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن سے درجنوں افراد کے بینائی سے محروم ہونے کی تحقیقات کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو تین روز میں اپنی رپورٹ اورمستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے تجاویز پیش کریگی۔انجیکشن کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کیلئے بھیج دیئے گئے ہیں۔ اصل حقائق تو تحقیقاتی رپورٹ کے بعد ہی سامنے آئیں گے تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ڈرگ انسپکٹروں نے یہ انجیکشن کیوں فروخت ہونے دیا؟ سارا معاملہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہو رہا ہے تو ہیلتھ کیئر کمیشن کہاں تھا؟ پنجاب کے بعد سندھ میں بھی اس انجیکشن کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ملک میں مبینہ طور پر جعلی ادویات کا کاروبار عام ہے جس کے پیچھے ایک منظم مافیا سرگرم ہے۔ غیر معیاری اور زائد المیعاد ادویات مارکیٹ میں فروخت ہونے کی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں لیکن مافیا کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کیخلاف اقدامات کئے جاتے ہیں۔ آشوب چشم میں استعمال ہونے والا ناقص انجیکشن حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو سخت ترین سزا دی جانی چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998