مقروض اور کرایہ دار کو سہولت اور معافی دینے کی فضیلت

November 24, 2023

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ اسلام میں نماز سب سے بڑی عبادت ہے لیکن قرآن کریم نے ایسے نمازیوں کو ہلاکت کی وعید سنائی ہے جو نماز کو محض قیام، رکوع، سجود تک محدود رکھتے ہیں اور اذہان و قلوب میں للہیت و خشیت پیدا کر کے دکھی انسانیت کو اس کے مصائب و آلام سے نجات نہیں دلاتے ۔ہمدردی و خیرخواہی اور ایثار و قربانی کا جذبہ دراصل انسان کی بے غرضی اور خلوص کی دلیل ہے۔ اسلام میں معاشرتی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں ، بیکسوں، معذوروں ، تنگ دستوں اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود ہے۔

یہ مقصد بہتر طور پر اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کی ضرورت ، تنگ دستی ، محتاجی دور کر کے اُن کے لئے آسانی پیدا کی جائے اور اس فکر و عمل کے ذریعے معاشرے میں دولت و ضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و اختیاج دور کرنے تنگ دستوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اپنا مال و دولت خرچ اور ایثار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے خرچ اور ایثار کو اپنے ذمے ’’قرضِ حسنہ‘‘ قرار دیتا ہے ۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتا ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت اسے دگنا کر دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ قرض دینے والوں کو اجر عظیم عطا ہوگا۔ (سورۂ حدید)

رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطالعے سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود بالخصوص دکھی انسانیت، مصیبت زدہ، مفلوک الحال، مفلس و محتاج اور تنگ دست لوگوں کو باعزت اور آسان زندگی گزارنے کے قابل بنانا آپ ﷺکی بعثت کے اعلیٰ مقاصد میں شامل تھا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’محتاج (تنگ دست) بیوہ اور مسکین کے لئے (زندگی کی آسانیاں) فراہم کرنے کی کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہد کی طرح ہے اور وہ شخص اس زاہد شب خیز کی مانند ہے جو ناغہ نہیں کرتا اور اس روزے دار کی طرح ہے ، جو روزہ نہیں کھولتا‘‘۔ یعنی تنگ دستوں اور بیواؤں ، یتیموں اور سفید پوش عزت دار لوگوں کی مصیبتوں کو دور کرنے میں کوشاں شخص اجر و ثواب میں مجاہد اور اس شخص کے برابر ہے جو ہمیشہ نماز میں مصروف رہتا ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں کرتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا ہے ،کبھی افطار نہیں کرتا۔

ان آیات و احادیث سے وہ معاشرتی ہمدردی و ایثار بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جسے اسلام نے ایک اچھے معاشرے کے لئے ضروری قرار دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے معاشرتی ہمدردی اور خیر خواہی کے وہ تمام امکانی پہلو بیان فرمائے ہیں، جن سے ایک اچھی معاشرت قائم ہو سکتی ہے۔

انسانی معاشرے میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ضرورتوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں قرض بھی انسانی ضروریات زندگی میں سے ایک ہے۔ شریعت ِاسلامی میں اس کے احکام و آداب بہت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، حتیٰ کہ قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت، قرض کے لین دین ہی کے احکام و آداب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔، اس سے قرض دینے کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔

قرض انسانی معیشت میں ضرورت کا ایک ’’آلہ‘‘ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرض لینے والوں کی اکثریت بہت شدید مجبوری کے عالم میں قرض لیتی ہے کہ جب معاملات زندگی کو چلانے میں یہ نوبت آجائے کہ نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن، تب ہی قرض کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت کی نظر میں بغیر کسی شدید مجبوری کے قرض لینے کو ناپسندیدہ اور معیوب سمجھا گیا ہے اور حکم یہی ہے، جب کوئی معقول اور جائز ضروری حاجت قرض لیے بغیر پوری نہ ہو رہی ہو، تب ہی قرض لیا جائے۔

واضح رہے کہ شدید مجبوری میں بھی سودی قرض لینے کی قطعاً اجازت نہیں۔ قرض لینے کے سلسلے میں شریعت کی دوسری اہم تعلیم اور ہدایت یہ ہے کہ جب بھی قرض لینے کی نوبت آئے تو اس سے پہلے یہ پختہ نیت اور ارادہ ہو جانا چاہئے ،میں یہ قرض پہلی سہولت اور بآسانی حاصل ہوتے ہی ادا کروں گا۔

لہٰذا قرضہ لینے سے پہلے ادائیگی کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس نیت سے قرض لے کہ وہ اسے ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے اسباب اور آسانی پیدا کرتا ہے، اگر قرض لیتے وقت اسے واپس نہ کرنے اور کھا جانے کا ارادہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس طرح کے اسباب پیدا فرماتا ہے کہ جس سے وہ مال ہی برباد ہو جاتا ہے۔ (صحیح بخاری) ایک اور اہم بات یہ کہ قرض کی ادائیگی پر قدرت اور حالات میں فراغت پیدا ہونے کے بعدجو لوگ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ،ایسے لوگ بفرمان رسول ﷺ ظالم و فاسق ہیں۔

دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اصحابِ وسعت کو ترغیب و تحریض فرمائی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں۔ قرآن مجید کی پانچ مختلف آیات میں ضرورت مندوں کو قرض حسنہ دینے کی ترغیب و تاکید ہے اور اس قرض دینے کو اللہ نے خود کو قرض حسنہ دینے سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے اللہ کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اہم سنت کو اس لئے وضع کیا ہے، تاکہ معاشرے کے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ انسان کو اس وقت ہی قرض لینے کی فکر کرنی چاہئے جب وہ خود سے اپنی ضرورت اور مشکل کے حل کا راستہ تلاش نہ کر پائے۔

دوسری طرف کسی مجبور کو قرض حسنہ دےکر اس کے اٹکے ہوئے کاموں میں اس کی مدد کرنا رضائے الہٰی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس کام کے ذریعے کسی مغموم دل کو شاد کیا جا سکتا اور بہتی ہوئی کسی آنکھ سے آنسو خشک کئے جا سکتے ہیں، کسی ضرورت مند کو وقت پر قرض دینا ایسا ہے، جیسے اس مجبور کو کچھ دےکر ، خالق کائنات کو قرضہ دیا گیا ہو۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ’’ہے کوئی ایسا کہ جو اللہ کو قرض حسنہ دے ،تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس کرے۔‘‘ (سورۃالبقرہ 245) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ’’اور اللہ کو قرض حسنہ دو ‘‘۔ (سورۃالمزمل 20)

رسول اللہ ﷺ سے متعدد احادیث میں اپنے بھائی کی مدد کرنے، اس کی پریشانی دور کرنے کی فضیلت وارد ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لئے آسانی کا سامان فراہم کیا ،اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا و آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا، اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم)

کسی مسلمان کو ایک سے زائد بار قرض دینے کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے توایک بار صدقہ شمار ہوتا ہے۔(نسائی، ابن ماجہ) اسی طرح قرض دینے کی عظمت و اہمیت اور اجر کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺنےارشاد فرمایا ’’معراج کی شب میں نے جنت کے دروازے پر صدقہ کا بدلہ دس گنا اور قرض دینے کا بدلہ اٹھا رہ گنا لکھا ہوا دیکھا، تو میں نے جبرائیل امینؑ سے کہا کہ قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں ہے؟ جبرائیل ؑ نے کہا کہ سائل تو مانگتا ہے ، جب کہ اس کے پاس کچھ مال موجود ہوتا ہے اور قرض دار تو (کچھ بھی نہ ہونے کی) صورت ضرورتاً ہی سوال کرتا یعنی قرض مانگتا ہے‘‘ ۔(سنن ابن ماجہ)

مذکورہ بالا احادیث نبوی میں اپنے مسلمان بھائی کو جس کے مالی حالات اچھے نہیں ،قرض دینا جہاں ایک اسلامی فریضہ قرار دیا گیا ،وہاں اس بات کی بھی شدید مذمت کی گئی کہ کوئی صاحب حیثیت جو اپنے ضرورت مند بھائی کو قرض دینے کی حالت میں ہو پھر قرض نہ دے تو یہ غیر مستحسن عمل ہے۔

قرض کی فراہمی پر فضیلت کے ساتھ ساتھ قرض حاصل کرنے اور وقتِ ادائیگی پر اس کی واپسی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی نہ کرنا اور اس اہم فریضے کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینے کو انتہائی نا پسندیدہ اور مبنی برگناہ عمل قرار دیا گیا ہے اور ایسے نادہندگان کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور ایسا شخص ظالم اور فاسق ہے ۔(بخاری و مسلم، فتح الباری)

قرض خواہی یا قرض کے مطالبے میں شریعت اسلامی کی تعلیمات تمام ادیان و مذاہب میں منفرد نوعیت کی تعلیمات ہیں۔ اس معاملے کا سب سے زیادہ حسین پہلو یہ ہے کہ اگر مقروض قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے مہلت اور سہولت دینے کی قرآن و حدیث پر بڑی ہی فضیلت و اجر کی بشارتیں سنائی گئی ہیں۔ اپنے قر ض سے دستبردار ہونے کی ترغیب دی گئی۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ’’اور اگر قرض دار تنگی والا ہے تو اسے آسانی و مہلت دو، جب تک کہ وہ آسانی میں نہ آجائے۔ اگر اس پر قرض کو معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے۔ اگر تم اس کا علم( و شعور) رکھتے ہو۔‘‘

یہاں قرض معاف کرنے کے لئے ’’تصدق‘‘ کا حسین و خوبصورت لفظ استعمال ہوا ہے، جسے اگر ہم اپنی زبان میں کہیں تو یوں ہوگا کہ ’’اگر تم قرض کی رقم کو مقروض پر نچھاور کردو ‘‘۔ اسی طرح احادیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے اس باب میں بڑی بشارتیں سنائی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا’’ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی تکلیفوں سے اسے نجات دے تو اسے چاہئے کہ مفلس قرض دار کو سہولت و مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا’’ قیامت کے ہولناک دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا تو وہ شخص اللہ کے عرش کے سائے میں ہوگا جس نے تنگ دست مقروض کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا ‘‘۔

حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’پچھلی امتوں کے ایک مال دار شخص کو مرنے کے بعد اللہ کے سامنے پیش کیا گیا، اللہ نے کہا، تیرے نامہ ٔ اعمال میں کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں، اللہ نے فرمایا: دیکھ سوچ شاید کوئی اپنی اچھی بات یا عمل تجھے یاد ہو، اس نے کہا کہ ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں لوگوں کو قرض دیاکرتا تھا تو جو مقروض تنگ دست ہوتا میں اسے مہلت دیتا یا اس کا قرض ہی معاف کر دیتا ، اللہ نے فرمایا کہ میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار ہوں، اے فرشتوں اسے بھی معاف کردو اور داخل جنت کردو۔

گزشتہ تین چار سال سے ہمارے ملک کی جو معاشی بدحالی کا عالم ہے اور اس بدحالی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں متوسط و غریب اور سفید پوش ولوگوں کی جو بد ترین مالی حالت ہے اوروہ جس معاشی بدحالی کا شکار ہیں، اس کا حال ہم میں سے ہر کسی پر روشن ہے۔ سب سے زیادہ معاشی بدحالی کا شکار ہمارے وہ بھائی ہیں جو فیکٹریوں ، کارخانوں، تعمیراتی کمپنیوں میں بیس پچیس ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت و مزدوری کرتے ہیں ،یا ہمارے روز کا کاروبار کرنے والے یا دیہاڑی دار ، سوچیں بیس پچیس ہزار میں پانچ چھ افراد کے گھرانے کا گزارہ ، اس مہنگائی اور بجلی گیس کے ہو شربا بلوں کی ادائیگی کے ساتھ کیسے ممکن ہے؟

لہٰذا ایسے لوگ اور سفید پوش حضرات ان حالات میں لامحا لہٰ ہر مہینے قرض لینے پر مجبور ہو گئے ہیں، انہی لوگوں میں ایسے بے گھر بھی ہیں، جو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، اب ذرا درد دل سے سوچیں کہ بیس پچیس ہزار تنخواہ اور کم از کم پندرہ ہزار گھر کا کرایہ ، کیا عالم ہوگا اسے گھروں کی بھوک، پیاس اور سائے کا !ہمارے پسماندہ علاقوں کے ایسے کرایہ دار گھر کے کرایے کی یا بجلی گیس کے بلوں ادائیگی کے لئے لامحالہ ہر مہینے قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

دوسری طرف کرایہ پرگھر دینے والے مالکان اپنے ذاتی رہائشی گھر کے علاوہ کم از کم ایک اضافی گھر کے مالک ہوتے ہیں اور اس گھر کے کرائے پر ان کی گزر بسر کا انحصار قعطاً نہیں ہوتا۔ اس پر طرفہ تماشایہ روز کا مشاہدہ ہے ،یہ مالک مکان ہر مہینے وقت پر کرایہ ادا نہ کرنے والے کرایہ دار وں کے گھر کا سامان نکال کر باہر پھینک دیتے ، یا ان کا پانی اور بجلی بند کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ کسی کا پانی بند کر دینا یزیدی عمل ہے۔

ایسے مالک مکانوں اور قرض دینے والوں کو آج کل کے بدترین ملکی معاشی حالات میں مجبور و مظلوم قرض داروں اور کرایہ داروں سے قرض اور کرائے کی وصولی میں سہولت و رعایت اور مہلت و معافی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے کہ ایسے مال داروں کے لیے جنت اور عرش الہٰی کے سائے کی بشارت ہے۔ اللہ ہماری معاشی بدحالی کو خوشحالی سے تبدیل فرمائے۔ (آمین)