پاک چین دوستی، بے مثال تعاون

November 29, 2023

گزشتہ دنوں چین اور پاکستان نیوی کی مشقیں اختتام پذیر ہوئیں جس میں شرکت کیلئے چین کے 5 بحری جہاز کراچی آئے۔ کئی روز تک جاری رہنے والی پاک چین مشقوں میں دونوں ممالک کے بحری جہازوں نے کھلے سمندر میں پیشہ ورانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ موجودہ کشیدہ حالات میں جب امریکہ کے بحری بیڑے بحیرہ عرب میں موجود ہیں، چین اور پاکستان کی ان مشقوں کو بڑی اہمیت دی گئی۔ چینی بحری جہازوں کی کراچی میں موجودگی کے دوران چین کے قونصل جنرل Yang Yundong اور چینی فلیٹ کمانڈر میجر جنرلLiang Yang نے چینی بحری جہاز کے ڈیک پر ایک عشایئے کا اہتمام کیا جس میں، میں بھی مدعو تھا۔ بحری جہاز کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ تقریب میں نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر، وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز، کمانڈر کراچی (COMKAR) ریئر ایڈمرل محمد سلیم، چین اور پاکستان نیوی کے دیگر اعلیٰ افسران، سفارتی نمائندوں اور اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر کراچی پورٹ پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ میں جب جہاز پر پہنچا تو نیوی یونیفارم میں ملبوس چین کے نیول اہلکاروں نے آنے والے مہمانوں کو سیلوٹ کرکے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی قونصل جنرل نے کہا کہ پاکستان، چین کا دوست ملک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اس طرح کی مشقیں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ مشقیں ہر سال باقاعدگی سے ایک مرتبہ پاکستان اور ایک مرتبہ چین کے سمندروں میں منعقد کی جاتی ہیں جس سے دونوں ممالک کی نیوی کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی آگاہی پیدا ہوتی ہے۔ تقریب کے اختتام پر چین کے لذیذ کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

کراچی میں تعینات چین کے قونصل جنرل یانگ یوڈونگ کو کراچی میں متعین ہوئے تقریباً 6 ماہ کا عرصہ گزرا ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات ان کی تعیناتی کے فوراً بعد ہوئی جب میں انہیں مبارکباد دینے چینی قونصلیٹ گیا۔ دوران ملاقات میں نے چینی قونصل جنرل کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا اور باوجود اس کے کہ چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعد چینی سفارتکاروں کی سیکورٹی انتہائی سخت ہے، انہوں نے میری دعوت کو قبول کیا اور اپنے کمرشل قونصلر اور ڈپٹی ہیڈ آف مشن کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے، یوں ہماری یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ گزشتہ دنوں چینی قونصل جنرل یانگ یوڈونگ نے مجھے اور میرے بھائی اختیار بیگ کو فیملی کے ہمراہ چینی قونصلیٹ میں عشایئے پر مدعو کیا۔ ہم جب چینی قونصل خانے پہنچے تو قونصل خانہ قلعہ کا منظر پیش کررہا تھا۔ اس موقع پر میری نظروں میں کچھ سال قبل پیش آنے والا منظر آگیا جب سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے خود کش حملہ آوروں جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پشت پناہی حاصل تھی، نے علی الصبح چینی قونصلیٹ پر حملہ کیا۔ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی تھی کہ قونصلیٹ کے اندر گھس کر عملے کو یرغمال بنالیا جائے اور چین کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ سی پیک کو رول بیک کرکے واپس چلے جائے مگر خود کش حملہ آور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ واقعہ کے بعد چینی قونصل خانے کی سیکورٹی میں مزید اضافہ کردیا گیا اور قونصلیٹ پر تعینات خاتون سفارتکاروں کو واپس بلالیا گیا۔ میری گاڑی جس میں، میں اور میرے بھائی فیملی سمیت موجود تھے، کئی حصار سے گزر کر چینی قونصل خانے میں داخل ہوئی تو وہاں چینی قونصل جنرل استقبال کیلئے موجود تھے۔ اس موقع پر چینی قونصل جنرل نے سخت سیکورٹی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ چینی قونصلیٹ اور کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان کے پروفیسر پر خاتون خود کش حملہ آور کے حملے کے بعد سیکورٹی میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے۔

امریکہ اور بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان میں متعین چینی سفارتکاروں کو ہراساں کرکے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے اور سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئرز اور عملہ واپس چلا جائے۔ حال ہی میں بلوچستان میں پسنی سے اورماڑہ جانے والی سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر حملے میں 14 جوانوں کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ کھانے کے دوران باتوں کا سلسلہ سی پیک منصوبے پر نکل گیا۔ سی پیک پاکستان اور چین کا ایک اہم منصوبہ ہے جس کا مقصد پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو سی پیک کے ذریعے جوڑنا ہے۔ گوادر پورٹ کے بارے میں چینی قونصل جنرل اور ان کی ٹیم نے بتایا کہ چین کی 60 فیصد توانائی خلیجی ممالک سے امپورٹ ہوتی ہے جسے شنگھائی پورٹ تک پہنچنے میں 2 مہینے لگتے ہیں اور حالت جنگ میں اگر امریکہ آبنائے بند کردیتا تو چین کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے لیکن اگر اس روٹ کو بائی پاس کرکے گوادر پورٹ کے ذریعے پہنچائی جائے تو شنگھائی پورٹ تک پہنچنے میں 25 دن درکار ہوتے ہیں جس سے قیمتی وقت بچایا جاسکتا ہے۔اس موقع پر چینی کمرشل قونصلر سے پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تجارت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ چین سے پاکستان کی امپورٹ 17 ارب ڈالر ہے۔ میں نے جب ان سے یہ پوچھا کہ پاکستان کے ریکارڈ میں 13 ارب ڈالر کی امپورٹ کیوں ظاہر ہورہی ہے تو کمرشل قونصلر نے بتایا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس اور ڈیوٹی بچانے کیلئے کچھ پاکستانی امپورٹرز نے 3 سے 4 ارب ڈالر کی انڈر انوائسنگ کی ہے جو کہ قابل افسوس ہے لیکن ہم اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر سے مکمل تعاون کررہے ہیں۔ عشایئے سے واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا دیرینہ دوست ہے جس نے ہر برے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ کچھ ماہ قبل جب پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا، اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو پاکستان ڈیفالٹ ہوسکتا تھا۔ اللہ کرے پاک چین دوستی ہمیشہ قائم رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)