جنگ یا امن

February 12, 2014

اس بات کو دوہزار سال بیت چکے ہیں۔ برصغیر تین خودمختار اور متحارب ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ ان ریاستوں میں زیادہ تر گندمی رنگت، ستواں ناک، اور بھوری آنکھوں والی آریائی النسل قومیں اور سیاہ رنگت، چپٹی ناک، چھوٹے قد والی دراوڑی نسل کی قومیں آباد تھیں۔مذہبی جنون کا راج تھا۔ ان میں سے دو ریاستوں کا مذہب اسلام تھا اور تیسری ریاست ہندو تھی۔ ویسے تو ریاست جیسی غیر مرئی چیز کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اس وقت کے مذہبی رہنمائوں کا اصرار تھا کہ مرئی غیر مرئی کی بحث خلط ِ مبحث ہے ریاست تو کیا پتھروں اور سمندروں کا بھی مذہب ہوتا ہے۔ اس لئے ریاست کا بھی مذہب ہوتا ہے اور اگرانسانوں کی طرح ریاست بھی اپنا مذہب بدل لےتو وہ بھی مرتد یا ملیچھ ٹھہرے گی۔ اس وقت برصغیر کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب تھی۔ جہاں ریاستوں کے لئے ان قوموں کے خیالات اس قدر متشدد اور سخت تھے، وہاں انسانوں کا کیا حال ہو گا۔ ہندو ریاست کے باسیوں کا خیال تھا کہ باقی دو ریاستوں کے ہم نسل اور ہم رنگ لوگوں نے اپنے پُرکھوں کا دھرم اور ان کی پرم پرائیں چھوڑ کر اور اسلام قبول کر کے ایک ناقابلِ معافی وشواس گھات کیا تھا اس لئے ان کی سزا موت ٹھہری تھی۔ اس ریاست کے مذہبی رہنمااپنے پیروکاروں کو یہ بات یاد کراتے رہتے تھے کہ کس طرح ان کی اپنی نسل اور اپنے مذہب کے لوگوں نے دوسرا دھرم قبول کرکے ان کے ساتھ غداری کی تھی اور پھر علیحدہ مذہب کو بنیاد بنا کر دھرتی ماتاکا کئی حصوں میں بٹوارہ کر لیا تھا جبکہ مسلمان ریاستوں کے مذہبی رہنما لوگوں کو یاد دلاتے رہتے تھے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو نیا اور جداگانہ وجود مل گیا تھا،اب ان کی تاریخ حتیٰ کہ ان کی نسل بھی تبدیل ہو گئی تھی۔ بھلے ان کی رگوں میں آریائی یا دراوڑی خون ہی دوڑ رہا تھالیکن اب ان کے آبائو اجداد آریا یا دراوڑی نسل کے لوگ نہیں رہے تھے کیونکہ وہ ہندو یا دیگر مقامی مذاہب کے پیروکار تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد عربی، وسطی ایشیائی اور افغانی و ایرانی نسلوں کے لوگ ان کے آبائو اجداد بن گئے تھے۔ اس لئے ہندوئوں پر غلبہ اور تسلط حاصل کرنا ان کی تاریخ بھی تھی اور ان کی آئندہ زندگیوں کا مقصد بھی۔ اپنے مذہبی رہنمائوں کے نظریات کے فروغ کے باعث ان مسلمان ریاستوں کے لوگ سچ مچ خیال کرتے تھے کہ نسلوں کا تعین خون یا ڈی این اے سے نہیں بلکہ مذہب سے ہوتا ہے۔اکیسویں صدی عیسوی کے برصغیر کے لوگوں کی معاشی حالت بہت ابتر تھی، اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرتی تھی۔ ان کا حکمران طبقہ حد درجہ کرپٹ اور عیاش تھا۔ عوام اور حکمرانوں دونوں کی اخلاقی حالت بہت دگرگوں تھی۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، کمزوروں کا حق مارنا، عام تھا۔ اس وقت رائج مذاہب میں جتنی بھی اخلاقی تعلیمات تھیں، ان سے برصغیر کے مذہبی رہنمائوں، حکمرانوں اور عوام کا دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ وہ مذہب کو صرف ایک دوسرے سے نفرت کرنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔
مذہبی جنون نے رفتہ رفتہ جنگی جنون کی شکل اختیار کر لی۔ ان ریاستوں کے انتہائی غریب عوام کی سال بھر کی محنت کی کمائی روزمرہ ضروریات کی اشیاء پر لگنے والے محصولات کی شکل میں اکٹھی کی جاتی اور فوجوں پر لگا دی جاتی یا پھر مہلک سے مہلک ہتھیاروں کی پیداوار اور درآمد پر خرچ کر دی جاتی تھی۔ اسی زمانے میں انسان انتہائی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایٹمی اور ہائیڈروجن بم ایجاد کرچکا تھا۔ سو برصغیر کی تین میں سے دو ریاستوں ، جو نفرت کی آگ میں دہک رہی تھیں، نے بھی بہت جلد وہ ہتھیار پیدا کر لئے۔قابلِ توجہ بات یہ تھی کہ وہ ریاستیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے معاصر ملکوں سے بہت پیچھے تھیں،ایٹمی اور ہائیڈوجن بموں کی اس وقت کی انتہائی جدید اور پیچیدہ ٹیکنالوجی میں البتہ بہت آگے نکل گئیں۔ جیسے جیسے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی پیداوار اور مذہبی جنون نفرت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ساری دنیا کو برصغیر کے ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی نفرت سے فکر لاحق ہوئی۔ پانچ ہزار سال پہلے بھی اسی برصغیر میں انہی آریائی قبیلوں کی نفرت کے باعث بیسیوں لاکھ لوگوں کی جان گئی تھی جب کوروں اور پانڈوں کے دو گروہوں کی شکل میں یہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے لیکن قدیم تاریخ کی سب سے خونی جنگ میں تو ان کی نسلیں بچ گئی تھیں لیکن اکیسویں صدی میں ان آریائی النسل لوگوں کی ایک دوسرے سے نفرت سے پورے کرۂ ارض کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ اس دور میں ان کے پاس جو ہتھیار تھے ان کے استعمال سے ان کی اپنی نسل کو ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کا وجود بھی خطرے سے دوچار تھا۔ ساری دنیا انہیں اپنی نفرت کم کرنے کا مشورہ دیتی تھی لیکن ان کی سمجھانا بہت مشکل تھا۔ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دے چکی تھیں، اس لئے ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی تھیں۔ ان کے مذہبی رہنما نفرت کی آگ کو بجھنے نہیں دیتے تھے۔ ان ریاستوں کے اندر سے بھی امن کیلئے کچھ نہ کچھ آوازیں وقفے وقفے سے اُٹھتی رہتی تھیں لیکن دونوں اطراف کے مذہبی جنونی ان آوازوں کو بہت آسانی سے دبانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ 2014ء کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ بھارت میں ہندو عظمتِ رفتہ کے احیاء کا خوفناک طوفان کروٹیں لے رہا تھا،ہندو عظمت کا وہ احیاء جس کا اہم پہلو ماضی میں اپنے دھرم کے ساتھ غداری کرنے والے’’اپنوں‘‘ کو ٹھکانے لگانا تھا جبکہ دوسری طرف ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں میں مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان بنا کر ،ہندو کشی اور ہندوستان پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون سفاکی کی نئی تاریخیں رقم کر رہا تھا۔
یہی وہ وقت تھا جب دنیا کے بعض دوسرے ممالک زمین سے باہر زندگی کا کھوج لگانے اور زندگی کو برقرار رکھ پانے والے دیگر سیاروں کا سراغ لگانے کی کوششوں میں ابتدائی کامیابیاں حاصل کر رہے تھے۔ بہت جلد ایک کے بعد دوسری دنیا دریافت ہوتی چلی گئی اور سفری ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ زمین سے باہر انسانوں کی آبادکاری کے عمل میں تیزی آتی چلی گئی۔ آج زمین پر زندگی ہماری انسانی تاریخ کا حصہ ہے اور خود زمین ویران اور بیابان پڑی ہے۔ ان آریائوں کی خیالی گم گشتہ عظمتوں کا احیاء تو نہ ہو سکا البتہ کوروں اور پانڈوں کی مہا یدھ کی ہولناکیاں، جو مہا بھارت میں درج ہیں،بہت چھوٹی محسوس ہونے لگیں۔ آج ہم صرف قدیم تاریخ کی کتابوں کے ذریعے ان آریائی اور دراوڑی قوموں کے وجود کے بارے میں واقف ہیں۔