مجھے ہے حکم اذاں

February 20, 2014

ہم جن لوگوں کو اپنا رہبر اور محبوب زندگی سمجھتے ہیں اور جن کا ذکر اپنی تقریروں ، مباحثوں تحریروں میں کرتے ہیں دیکھئے حضر ت علیؓ کی زندگی‘ ہمیشہ زمین پر سوتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا روزانہ خرچ دو درہم تھا حضر ت ابوبکرؓ نے فرمایا مجھے انہی کپڑوں میں دفن کردینا کیونکہ نیا کپڑا زندوں کے لیے ہے اس کے بعد بھی بے شمار اچھے لوگ آتے رہے اور ہمیں نیکی، پاکیزگی اور سادگی کی تعلیم دیتے رہے لیکن کیا ہم اس پر چلتے ہیں قیام پاکستان کے بعد بھی ہمارے بہت سے رہنما سادگی اور ایمانداری کا نمونہ تھے ہم نے مذہبی عبادتوں کوRoutine بنا رکھا ہے یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہم بری طرح برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ہم نے پاکستان بناتے وقت اللہ کریم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم یہ ملک تیرے نام پر بنا رہے ہیں جہاں انصاف استحصال سے پاک نظام حکومت‘ انسانی عظمت کے معیار اور دنیا کے لئے اسلامی ترقی یافتہ طرز حکومت کا قیام عمل میں لائیں گے مگر کیا ایسا ہوسکا؟
بالکل نہیں یہ بے گوروکفن لاشیں مظلوموں کی چیخیں اسکولوں کے معصوم بچوں کی پکار‘ بھوکے پیاسے لوگ کیا ہمارے لیے تازیانہ عبرت نہیں ایک انقلابی‘ اسلامی اور ترقی پذیر‘ انسانیت دوست قوم بننے کے لئے کرپشن بد دیانتی بے ایمانی ختم کرنے کے لئے ہمیں ایک کڑا احتساب کرنا پڑے گا وہ تمام لوگ جنہوں نے قوم کے اربوں ڈالر باہر کے ملکوں میں جمع کئے ہیں لاکر پاکستان کو جنت بنا دیں۔
بُرے وقت غیر اسلامی اور اسلامی ملکوں پر بھی آئے‘ جاپان پر ایٹم بم گرا یا گیا مگر آج اس قوم کا مقابلہ امریکا کی اقتصادیات بھی نہیں کرسکتی‘ امریکا کے صدر اس کی ترقی دیکھ کر جاپان میں ایک تقریب کے دوران ششدر رہ گئے تھے۔ جرمنی دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہوگیا تھا ویت نام‘ کوریا،الجزائر جیسے کئی ملک دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد مٹی کا ڈھیر بنا دئیے گئے تھے مگر آج مغربی ممالک ان کی عظیم قیادتوں سے تعلقات رکھنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں انہی کی یونیورسٹی میں جاکر مغربی ملکوں کے کئی حکمرانوں نے ان سے جاکر معافیاں مانگی ہیں ۔ برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے بعد تباہ ہوگیا تھا فرانس‘ الجزائر کی جنگ میں تقریباً دیوالیہ ہوگیا تھا۔ چین کی مثال ہمار ے سامنے ہے لیکن ان کی قیادتوں نے انہیں لازاول حیثیت دے دی ہے۔ کیونکہ ان کے سیاسی قائدین نمونے کی طرز زندگی پیش کرتے ہیں۔ پری پلان ہماری قوم کی قوت مدافعت توڑنے کے لئے ہمارے اہل ثروت طبقے نے پانی کے بہائو کے مخالف چلنے کی کوشش کی ہے لیکن قوم کہاں ہے ملک کو کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے بنگلہ دیش میں مذہبی قوتوں کوشدت پسندوں‘ تخریب کاروں کے سامنے بے بس دیکھا ہے جو کہ جدید دور کے چیلنج کا مقابلہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ آج بھی علماء اور مذہبی لوگوں کی عزت و تکریم اعلیٰ پیمانے کی ہے لیکن کیا وہ برائیوں کے خلاف اور معاشرے کی استحصالی قوتوں کے خلاف اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔بالکل نہیں صرف ثواب اور جنت کی بشارت ہی دیتے ہیں۔ میں نے کسی محلے کی مسجد کے امام کو کسی ریاکار اور غلط آدمی کا کھانا اور چندہ واپس کرتے نہیں دیکھا اگر ایسا ہو جائے تو ہماری کایا ہی پلٹ جائے عوام انصاف کے تمام دربانوں سے محروم ہوکر خدا کے سامنے عاجزی اور انکسار سے گڑگڑا رہے ہیں ۔ دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اگر عمل درست نہ ہو۔ خدا کے بھید خدا ہی جانتا ہے۔ ہم ایک مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں پھر بھی سنبھلتے نہیں‘ اپنے اعمال درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آج طاغوتی طاقتوں،ظلم و آفات کے خلاف قوت مزاحمت کی شکل میں صرف عساکرپاکستان کے جانباز مومنانہ صفات رکھنے والے نظر آرہے ہیں کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں کا مشکل حالات میں پتہ نہیں لگتا یا ہمیں نظر نہیں آرہے۔
انسانی عصمتوں کی پامالی کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہوچکا ہے۔ عزت نفس سے محروم قوم کے افراد کو بہت سلیقے سے کیا جارہا ہے پھر پاکستانی عوام کے پاس مشکل وقت میں متحد ہونے کی قوت تو موجود ہے مگر حکمران اور سیاسی رہنما اسے استعمال کرنا نہیں چاہتے یا کرتے نہیں۔ آج پاکستان کو بہت سلیقے سے لسانی، ثقافتی ورثہ اورعلاقائی زبانوں کے نام پر تقسیم کیا جارہا ہے۔ قرآ ن کریم میں جن مختلف قوموں کی تباہی کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں آج ہم ان سے کہیں آگے جاچکے ہیں پورا معاشرہ برائی کو برائی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے معاشرے کی بداعمالیاں اور برائیاں قدم قدم پر ہمارے مشاہدات میں آتی ہیں ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں مجھے ان کے خلاف جدوجہد بھی کرتی ہوئی نظر نہیں آتیں اور ا ن برائیوں کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ میں نے دیکھا ہے انتخابات میں جھوٹے حلف نامے اور جعلی ڈگریوں کے نام پر حلف بھی اٹھائے گئے ہیں اب بھی وقت ہے‘ ہمیں سنبھل جانا چاہئے، خداوند کریم کی لاٹھی بے آواز ہے۔