رمضان کے آخری عشرہ کی فضیلت و اہمیت

March 22, 2024

مولانا محمد راشد شفیع

رمضان المبارک کا پورا مہینہ دیگر مہینوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ،اور ماہِ رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے،مگر ماہ رمضان کے آخری دس دنوں کی اہمیت اور عظمت بہت زیادہ ہے،آخری عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ ہے،نبی اکرم ﷺ یوں تو پورا ماہ رمضان عبادت و ریاضت میں گزارتے تھے مگر آخری دس دنوں میں نبی اکرم ﷺ کی عبادت میں اضافہ ہو جایا کرتا ،چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے فرمایا: جب (آخری) عشرہ شروع ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ کمربستہ ہوجاتے، اس کی راتوں کو زندہ رکھتے (یعنی شب بیدار رہتے) اور گھر والوں کو جگایا کرتے۔‘‘ (متفق علیہ) اور نبی اکرم ﷺ آخری دس دن کا اعتکاف بھی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے ،یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺکا وصال ہو گیا۔

پھر آپ ﷺکے بعد آپ کی ازواج مطہراتؓ نے بھی اعتکاف کیا ہے۔‘‘(متفق علیہ)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور جس سال آپ ﷺکا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ ﷺنے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘(متفق علیہ)حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺرمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ نے مجھے مسجد میں وہ جگہ (بھی) دکھائی جہاں رسول ﷲﷺ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔‘‘(مسلم)

آخری عشرہ کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے ،اس عشرہ میں لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے،علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قدر کے معنیٰ مرتبے کے ہیں ‘چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبے کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ مبارک رات اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کو عطا فرمائی ہے جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ مبارک رات اس لئے عطا فرمائی کہ جب رسول پاکﷺ کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپﷺ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپﷺ کو لیلۃ القدر عطا فرما دی گئی‘ جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔(موطا امام مالک)

اس کی تائید حضرت ابن عباس ؓسے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپﷺ کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا‘ جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔تو آپﷺ نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب ،میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شب قدر عنایت فرمائی۔

آخری عشرہ کی فضیلت سے متعلق بکثرت روایات موجود ہیں، چنانچہ ’حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺ نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔‘‘ (متفق علیہ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرمﷺ کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپﷺ نےخطبہ دیتے ہوئے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی، لیکن میں اُسے بھول گیا یا وہ مجھے بھلا دی گئی۔

پس اُسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو اور میں نے دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس جس نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اعتکاف کیا ہے، اسے لوٹ جانا چاہیے۔ ہم لوٹ گئے اور ہمیں آسمان میں کوئی بادل نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ ایک بدلی آئی اور برسنے لگی۔ یہاں تک کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی جو کھجور کی شاخوں کی تھی۔ نماز قائم کی گئی تو میں نے رسول اللہﷺ کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔یہاں تک کہ مٹی کا نشان میں نے آپﷺ کی پیشانی پر دیکھا۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور فرمایا کرتے : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو۔‘‘(ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو نبی ﷺ رات بھر بیدار رہتے اور اپنے اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم حضرت محمد ﷺ ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ، مگر جس سال آپﷺ کا انتقال ہوا ، آپﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ ( صحیح بخاری )آخری عشرہ کے آخر میں جو رات آتی ہے اسے لیلۃ الجائزہ(انعام ملنے کی رات) کہتے ہیں اس کی بھی احادیث مبارکہ میں فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے اِرشاد فرمایا : جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ)مطلب یہ ہے کہ آدمی اِن راتوں کو عبادت ِ الٰہی میں مصروف رکھے توقیامت کے خوف ناک، ہولناک اَور دہشت ناک دِن میں جبکہ ہرطرف خوف و ہراس گھبراہٹ اَور دہشت پھیلی ہوئی ہوگی لوگ بدحواس ہوں گے اُس دِن میں حق جل شانہ اِس کو نعمت والی اَور پُر سعادت زندگی سے سر فراز فرمائیں گے۔

اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ ہم ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں خوب عبادت کا اہتمام کریں اور اعتکاف کے ذریعہ لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کی کوشش کریں اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔