نمازِ تراویح کے اجتماعات میں تلفظ کی ادائیگی و قرأت کا حکم

March 22, 2024

تفہیم المسائل

سوال: ماہِ رمضان المبارک میں جگہ جگہ 5روزہ ،10روزہ اور 15روزہ تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے ،جس میں اکثر حفاظ قرآن پاک کو غلط انداز میں پڑھتے ہیں، جبکہ مقتدیوں کا بھی تصور یہ ہوتا ہے کہ چند روزہ تراویح کے بعد مزید نہیں پڑھنی، دوسری طرف ان محافلِ تراویح میں شامل اکثر لوگ پیچھے بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے ہیں اور رکوع میں جانے سے پہلے جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کیا اس طرح کی تراویح کا اہتمام کرنا مناسب ہے ؟،(حاجی رضوان الٰہی ،کراچی )

جواب: قرآن مجید مطلقاً صحیح پڑھنا فرض ہے، خواہ نماز میں ہو یا بیرونِ نماز، قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے :ترجمہ:’’ اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ،(سورۃ المزمل :4)‘‘۔

حروف کی ادائیگی اُن کے مخارج سے درست طورپر ہو ،وہ صفات جن سے ایک مخرج کے چند حروف ایک دوسرے سے ممتاز ہوں ، اُن کی رعایت کی جائے۔علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ قوم کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ نمازِ تراویح میں محض خوش الحان کو اپنا امام بنائیں، بلکہ درست خواں (صحیح پڑھنے والے )کو امام بنانا چاہئے۔ کیونکہ بعض اوقات لوگ خوش الحان قاری کی آواز کے سحر میں کھو کر نماز میں خشوع وخضوع اور آیاتِ الٰہی میں تدبرو تفکر سے غافل ہوجاتے ہیں، جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے‘‘۔ نوٹ: فتاویٰ عالمگیری کے حاشیہ میں ’’بحراوی ‘‘کے حوالے سے ’’خوش خواں‘‘ کے معنیٰ ’’اچھی آواز کے ساتھ پڑھنا ‘‘اور’’ درست خواں‘‘ کے معنیٰ ’’صحیح قراءت کے ساتھ پڑھنا ‘‘ کیے ہیں ۔(فتاویٰ عالمگیری، جلد1،ص:116)

صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ اس مسئلے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’افسوس صد افسوس کہ اس زمانے میں حفاظ کی حالت ناگفتہ بہ ہے، اکثر تو ایسا پڑھتے ہیں کہ ’’یعلمون ،تعلمون‘‘کے سوا کچھ پتہ نہیں چلتا الفاظ وحروف کھاجایا کرتے ہیں جو اچھا پڑھنے والے کہے جاتے ہیں، اُنہیں دیکھئے تو حروف صحیح ادا نہیں ہوتے۔ ہمزہ ،الف، عین اور ذ ،ز،ظ اور ث، ش، ص، ت، ط وغیرہ احروف میں تفرقہ نہیں کرتے ،جس سے قطعاًنماز ہی نہیں ہوتی ۔فقیر کو انہی مصیبتوں کی وجہ سے تین سال ختم قرآن مجید سننا نہ ملا ‘‘۔(بہارِ شریعت ،جلداول ،حصہ پنجم ،ص:271)

پانچ روزہ ،دس روزہ یا پندرہ روزہ تراویح کی ادائیگی میں شرعی طور پرتو کوئی قباحت نہیں ہے بشرطیکہ قرآن مجید صحیح پڑھا جائے، الفاظ کی ادائیگی صحیح ہو اور سننے والے کی سمجھ میں آئے۔ اگر پانچ یا دس روزہ تراویح وختمِ قرآن سے یہ سمجھا جائے کہ بس ایک قرآن ختم ہوگیا، اب تراویح سے بھی فارغ ،تو یہ طرزِ عمل اور سوچ بالکل غلط ہے، تراویح پورے ماہِ رمضان کی سنّت ہے، ختمِ قرآن خواہ ستائیسویں شب کو ہو یا اِس سے کم دنوں میں ،چاہئے کہ بقیہ دنوں کی تراویح بھی باقاعدگی سے پڑھیں۔دورانِ نماز مقتدیوں پر خاموشی کے ساتھ تلاوت سننا فرض ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو، تاکہ تم پر رحم کیاجائے ،(سورۃالاعراف:204)‘‘۔

سہ روزہ، پنج روزہ ،شش روزہ یادس روزہ تراویح میں شرکت کرنے والے بعض افراد کا عمل جو آپ نے نقل کیاہے ،یہ انتہائی افسوس ناک ہے، یہ ایک طرح سے نماز، قرآن اور قیام کی اہمیت کو کم کرنا ہے اور اہانت کے مترادف ہے، ایسے لوگ اپنا طرزِ عمل درست کریں اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں۔