بچوں کو روزہ رکھوانے کا حکم

March 22, 2024

تفہیم المسائل

سوال: بچوں کو کس عمر میں روزہ رکھوانا چاہئے ؟۔(محمد امیر ممتازی ، کراچی )

جواب: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر علاماتِ بلوغ ظاہر ہوجائیں تو اس پر بلوغت کا حکم لگایا جائے گا اور اُس پر احکامِ شرعیہ فرض ہوجائیں گے، اگر علامات ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال پورے ہونے پر بالغ تصور کیاجائے گا۔ علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہوجائے اور جب د س سال کا ہوجائے تو صحیح ترین قول کے مطابق اسے سرزنش کرکے روزہ رکھوایا جائے، جیسا کہ نماز کے بارے میں حکم ہے ‘‘۔

اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ بعض فقہاء نے بچے کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کی عمر سات سال بتائی ہے ، (وہ لکھتے ہیں) ہمار ے زمانے کا مشاہدہ یہ ہے کہ اتنی عمر میں بچہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کا مدار ہرایک کی جسمانی صلاحیت ،صحت اور موسم (گرمایا سرما) پر ہے اور ظاہر یہ ہے کہ جتنے دن آسانی سے وہ روزہ رکھ سکے ،اسے کہاجائے، پورے مہینے کے روزے رکھوانا ضروری نہیں ہے ،(مزید لکھتے ہیں)اگر نابالغ بچہ روزہ رکھنے کے بعد بغیر عذر کے توڑ دے تو اس پرقضا نہیں ہے ‘‘۔(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3،ص:344،داراحیاء التراث العربی ،بیروت)

شیخ الحدیث والتفسیر علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں : ’’جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ جن بچوں کی عمر بلوغت سے کم ہو، اُن پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے، متقدمین کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے۔ ابن سیرین اور زہری کا بھی یہی قول ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے، اُنہوں نے کہا کہ جب بچے روزے رکھ سکیں تو ان کو مشق کرانے کے لئے ان سے روزے رکھوانے چاہئیں۔

امام شافعی ؒ کے اصحاب کے نزدیک اس کی حدنماز کی طرح سات سال اور دس سال ہے اور اسحاق کے نزدیک اس کی حد بارہ سال ہے اور امام احمد کے نزدیک ایک روایت میں اس کی حد دس سال ہے اور امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ بچوں کے حق میں روزہ مشروع نہیں ہے۔

علامہ ابن بطال نے کہا ہے کہ علماء کا اس پراجماع ہے کہ عبادات اورفرائض صرف بلوغ کے وقت لازم ہوتے ہیں ،مگر اکثر علماء نے برکت کے لئے بچوں کو عبادات کی مشق کرانا مستحسن قراردیا ہے تاکہ بچے عبادات کے عادی ہوجائیں اور جب ان پر عبادت لازم ہو، تو ان کے لئے عبادت کرنا آسان ہو اور جو اُن کو عبادت کی مشق کرائے گا، اس کو اجر ملے گا، (عمدۃ القاری، جلد11، ص: 98 بیروت۔نعمۃ الباری ،جلد4،ص:473)