مرتبان

March 27, 2024

میں راستوں کابہت کچا ہوں، اکثر راستہ بھول جاتا ہوں، مگر اُس رو ز تو حد ہی ہوگئی ، میں اپنے دھیا ن میں گھر کی جانب جا رہا تھا،اِس راستے میں ایک نہر آتی ہے ، نہر کے اُس پار جو آبادی ہے وہاں میرا گھر ہے ، سو ایک لگا بندھا سا راستہ ہے جس پر میرے قدم خود بخود اٹھتے چلے جاتے ہیں۔مگر کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں کسی انجان علاقے میں آگیا ہوں۔نہر کہیں پیچھے رہ گئی تھی حالانکہ میرا گھر جہاں واقع ہے وہاں سے نہر نظر آتی ہے ، آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتی ۔میں نے ادھر ادھر دیکھا، میرے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا، پُراسرار سی خاموشی چاروں طرف چھائی ہوئی تھی ، سامنے البتہ کچھ فاصلے پر مکانات دکھائی دے رہے تھے مگر اُن کا طرز تعمیر کچھ عجیب سا تھا ۔ میں نے سوچا کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا، مگر پھرجلد ہی مجھےاِس احمقانہ خیال کو سر سے جھٹک کر نکالنا پڑا کیونکہ اسی وقت کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے متوجہ کیا تھا۔میں نے مُڑ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر کا آدمی کھڑا تھا، اُس کا حلیہ ایساتھاکہ جسے میں بیان نہیں کرسکتا ، اُس کے کپڑے عجیب سے تھے اور اُس کی آنکھوں میں ویرانی اور خوف کے سائے تھے۔ اُس نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر ہاتھ پکڑ کر ایک جانب چل پڑا ، مجھے لگا جیسے وہ کسی ان دیکھی قوت سے خوفزدہ ہے اور جلد از جلد کسی جگہ پہنچنا چاہتا ہے ۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہم ایک شکستہ حال مکان میں داخل ہوگئے اور اُس کی چھت کے نیچے یوں پناہ لے لی جیسے خود کو محفوظ کرنا مقصد ہو ۔ میرے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو رہا تھا ، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کہاں ہوں ، یہ شخص کون ہے اور اِس علاقے میں کس قسم کے لوگ رہتے ہیں۔اِس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ، اُس شخص نے پہلی مرتبہ زبان کھولی۔

’’تم یہاں نئے آئے ہواِس لیے احتیاط سے رہنا، ایسا نہ ہوکسی حادثے کا شکار ہوجاؤ۔‘‘

’’کیسا حادثہ، یہ کیا جگہ ہے …اور تم سے کس نے کہا کہ میں یہاں قیام کرنے کی غرض سے آیا ہوں، میں تو فقط اپنے گھر کا راستہ بھولا ہوں…‘‘

’’خاموش رہو، تم جیسے نووارد پہلے پہل ایسے ہی باتیں کرتے ہیں، تمہیں کچھ علم نہیں کہ یہاں…‘‘

’’کیا ہے یہاں؟‘‘ میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔مگر اُس پُراسرار اجنبی نے جواب دینے کی بجائے دوبارہ میرا ہاتھ پکڑ ااور مجھے مکان سے باہر نکال لے گیا۔’’ذرا غور سے چاروں طرف دیکھو، تمہیں کیا نظر آرہا ہے ؟‘‘میں نے ادھر ادھر دیکھامگر مجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا ، عجیب طرز کے مکانات کے باہر ویسی ہی ویرانی تھی۔میں نے استفہامیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا، پہلی مرتبہ اُس پراسرار شخص کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ، اُس نے اپنے کپڑوں کو ٹٹولا اور پھر نجانے کہاں سے ایک کنٹوپ برآمد کرکے میرے سر پر چڑھادیا۔’’اب دیکھو۔‘‘ میں نےاوپر کی جانب نظر دوڑائی اور پھر اچانک مجھے یوں لگا جیسے ہم کسی جہازی سائز کے مرتبان میں ہیں، ابھی میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پایا تھا کہ اُس شخص نے میرے سر سے کنٹوپ اتار دیا۔’’اسے زیادہ دیر تک استعمال نہیں کر سکتے، انہیں شک پڑ جاتا ہے۔‘‘ میں چکرا کر رہ گیا، اُس شخص کی باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں مگر اُس کے لہجے کاتیقن ایسا تھا کہ جیسے وہ کوئی اٹل حقیقت بیان کر رہا ہو۔میں نے اسے غور سے دیکھا ۔’’تم لوگ کون ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔’’ہم بھی تمہاری طرح کے لوگ ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہم پر کوئی تجربہ کیا جا رہا ہے جبکہ تم لوگ اِس خوش فہمی میں مبتلا ہوکہ …‘‘ اُس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔’’کیسی خوش فہمی، بات مکمل کرو۔‘‘

’’چھوڑ، تم نہیں سمجھو گے، ہمیں بھی یہ بات سمجھنے میں کئی صدیاں لگیں، پھر کہیں جا کر ہمارے لوگ اِس قابل ہوئے کہ یہ چھوٹا سا کنٹوپ بنا سکیں جس کی مدد سے ہمیں پتا چلا کہ ہم اِس مرتبان میں محض کیڑے مکوڑے ہیں۔‘‘اب مجھے اِس شخص کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا تھا، اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ خود ہی بول پڑا۔’’تم مجھے پاگل سمجھ رہے ہو،پہلے ہم بھی ہر اُس شخص کو پاگل ہی سمجھتے تھے جو ہمیں بتاتا تھا کہ ہم پر تجربہ کیا جا رہاہے۔‘‘

’’کون تجربہ کر رہا ہے تم لوگوں پر؟‘‘ میں نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا۔

’’یہ ہم نہیں جانتے۔‘‘اُس نے سنجیدگی سے کہا۔’’فی الحال جتنا ہمارے علم میں آیا میں نے بتا دیا۔‘‘

’’اور تمہیں اِس بات کا کیسے یقین ہے کہ تم لوگ کسی…‘‘

’’حادثات…‘‘ اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے جواب دیا ۔’’بے تکی اموات، جیسے تم لوگوں کے پاؤں کے نیچے ہزاروں کیڑے مکوڑے آکر مر جاتے ہیں اور انہیں پتا ہی نہیں چلتا ، بالکل ویسے ہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘’’اِن تمام باتوں کا کیا ثبوت ہے، جو کنٹوپ تم نے میرے سر پر چڑھایا وہ تو اُلٹا نظر کا دھوکا ہے ؟‘‘ میں نے جھنجھلا کر کہا۔جواب میں اُس شخص نے ایک مرتبہ پھر ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر ایک طرف کو چل پڑا ۔ ہمارا رُخ ایک پہاڑی کی جانب تھا، بدقت تمام میں پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہوا مگر وہ شخص یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے یہ اُس کا معمول ہو۔میں نے چوٹی سے جھک کر دیکھانیچے دریا بہہ رہا تھا،ابھی میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اُس شخص کی آواز آئی ۔’’ اب تم ہمارے والےتجربے کا حصہ ہو۔۔۔‘‘ اور پھر اچانک اُس نے مجھے دھکا دے دیا ۔خدا کا شکر ہے کہ نیچے دریا تھا ورنہ میری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں۔بہت مشکل سے میں ہاتھ پیر مار کر دریا کے کنارے پہنچا، میرا سانس تیزی سے چل رہا تھا ، مجھے یہ سب کچھ کسی ڈراؤنے خواب کی مانند لگ رہا تھا، مگر یہ خواب نہیں تھا ،میں نے غور کیا تو پتا چلا کہ یہ دریا نہیں بلکہ وہی نہر ہے جو میری بستی کے پاس سے گزرتی ہے ۔مجھے اِ س حالت میں پا کر کچھ لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے ۔کچھ لوگوں نے میری خیریت پوچھنے کی کوشش کی مگر میرے منہ سے کوئی آواز نہیں نکل پائی ۔میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے اورشاید ہم کسی مرتبان میں ہیں ، مگر میرے منہ سے با معنی الفاظ کی بجائے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں، جیسے کوئی انجانی بولی، وہ لوگ میری شکل اور بولی دیکھ کر ڈر گئے ۔اُس وقت اُن کے چہر ے پر بھی ویسا ہی خوف طاری ہو چکاتھا جیسا میں اُس بستی میں پُر اسرار شخص کے چہرے پر دیکھ کے آیا تھا۔