جج صاحبان کا ضمیر بھی جاگ گیا

March 28, 2024

ضمیر ایک ایسی پہیلی ہے جو سلجھانے کی کوشش میں مزید اُلجھتی چلی جاتی ہے۔ اردو گرامر میں ضمیر کو اسم شمار کیا جاتا ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً ضمیر شخصی، ضمیر متکلم، ضمیر حاضر، ضمیر غائب، ضمیر اشارہ، ضمیر موصولہ، ضمیر استہفامیہ، ضمیر، ضمیر تاکیدی ،ضمیر صفتی، ضمیر فاعلی، ضمیر مفعولی اور ضمیر اضافی وغیرہ۔ گاہے خیال آتا ہے گرامر میں ضمیر کی کئی اقسام کا اضافہ کیا جانا چاہئے، مثال کے طور پر ضمیر فرمائشی، ضمیر شریر، ضمیر صغیر، ضمیر کبیر وغیرہ۔ اصطلاحی معنوں میں ضمیر دراصل انسان کے نہاں خانہ دل میں سلگتی اس چنگاری کا نام ہے جو اصولوں کی خلاف ورزی اور قانون کو مسلسل روندتے ہوئے ذہنی اذیت اور احساس جرم کے پیش نظر کبھی اچانک بھڑک اُٹھتی ہے اور سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ خود شناسی کی اس واردات کو بالعموم ضمیر جاگنا کہا جاتا ہے۔ اب یہ ضمیر کب تک گھوڑے بیچ کر سوتا رہے اور کب دفعتاً بیدار ہو جائے، اس بارے میں کسی قسم کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ ضمیر بوٹوں کی دھمک، نوٹوں کی چمک، کسی اُفتاد کی آہٹ، کسی پازیب کی کھنک، پانے کے خمار، کھونے کے آزار، شوق کمال یا پھر خوفِ زوال کے باعث بھی اچانک انگڑائی لیکر اُٹھ بیٹھتا ہے۔ اور پھر ایسا نہیں کہ ایک بار ضمیر باتدبیر کی آنکھ کھل جائے اور خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو پھر اونگھ نہیں آ سکتی، سازگار ماحول فراہم کیا جائے تو یہ ایک بار پھر لمبی تان کر سو جاتا ہے اور تب تک بیدار نہیں ہوتا جب تک کسی فرمائشی پروگرام کے تحت پھر سے زحمت نہ دی جائے۔ بعض اوقات لوگ معترض ہوتے ہیں کہ یہ ضمیر اب کیوں جاگا ہے تب کیوں نہیں جاگا حالانکہ ان اسرار و رموز سے خود ضمیر بھی بے خبر ہوتا ہے۔ اسے قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ کب کتنے وقت کے لئے اسے جگایا جائے گا۔ مثال کے طور پر کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے ضمیر نے اچانک انگڑائی لی تو یوں لگا جیسے بھونچال آ گیا ہے اور اب اقتدار کے ایوان لرز جائیں گے مگر یہ ضمیر جس سرعت رفتار سے بیدار ہوا تھا، اس سے کہیں زیادہ تیزی سے سلا دیا گیا۔ ان گناہ گار آنکھوں نے سیاستدانوں کے ضمیر بھی اسی طرح جاگتے اور سوتے دیکھے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے جنرل فیض حمید کی کاوشوں سے جنوبی پنجاب کے ارکان پارلیمنٹ کے ضمیر اچانک جاگ گئے اور صوبہ جنوبی پنجاب محاذ بنا کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا گیا۔ میں نے تب بھی انہی صفحات پر لکھے کالم میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ ماضی میں تو میجر جنرل احتشام ضمیر کی ٹیلیفون کال آتی تھی تو لوگوں کے ضمیر جاگ جاتے تھے، اب نجانے کس کا ’’فیض‘‘ ہے۔ بہر حال پھر ایک وقت آیا جب ان سیاستدانوں کے ضمیر نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کرنے کیلئے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسیں ہونے لگیں۔

لیکن سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی طرح اب جج صاحبان کے ضمیر بھی بیدا ر ہونے لگ پڑے ہیں۔ اب ایک اور دھماکہ خیز انکشاف یہ ہوا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے چند معزز جج صاحبان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ عالی مرتبت جج صاحبان نے خفیہ اداروں کی مداخلت کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا ہے جس میں بہت خوفناک قسم کے الزامات عائد کئے گئے ہیں اور بظاہر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلانے کی کوشش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جیسی مداخلت تب ہورہی تھی کیا ویسی مداخلت اب بھی کی جا رہی ہے، اس حوالے سے انکوائری کی جانی چاہئے۔ تعجب ہے جب واٹس ایپ اسیکنڈل سامنے آیا، فرمائشی پروگرام کے تحت پانامہ جے آئی ٹی بنائی گئی،جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کی پاداش میں انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ہٹا دیا گیا، جب احتساب عدالتوں سے خفیہ اداروں کے افسروں کو نکلتے ہوئے دیکھا گیا،جب ججوں کو کہا جارہا تھا کہ ایسی صورت میں ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی ،تب کسی جج کا ضمیر بیدار نہیں ہوا، یہاں تک کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حق میں کھڑے نہیں ہوئے ،کچھ جج صاحبان کی تعیناتی تو بعد میں ہوئی مگر ایک سینئر جج جو یہ خط لکھنے والوں میں شامل ہیں ،وہ تب بھی اس مسند پر براجمان تھے مگر ضمیر کی خلش نے کوئی خط لکھنے پر نہیں اُکسایا تو اب یوں اچانک یہ ضمیر کیسے بیدار ہوگیا؟

عدالتوں سے من پسند فیصلے لینے کے لئے دبائو ڈالنے اور ججوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں جسٹس سجاد علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے لئے اپنی سربراہی میں لارجر بنچ تشکیل دیدیا۔ ابتدائی سماعت کے بعد ان درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 5نومبر 1995ء کو اسلام آباد میں پانچ رُکنی لارجر بنچ کے روبرو فکس کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ بات معلوم تھی کہ اس کیس میں کس طرح کا فیصلہ آسکتا ہے اس لئے جسٹس سجاد علی شاہ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ،جسٹس سجاد علی شاہ کے داماد پرویز علی شاہ جو سرکاری ملازم تھے۔ ان کے گھر پولیس نے دھاوا بول دیا اور پھر انہیں معطل کر دیا گیا۔ پرویز علی شاہ کے بھائی جوپی آئی اے میں تھے انہیں بھی معطل کر دیا گیا دبائو اس قدر بڑھا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو ہارٹ اٹیک ہوگیا اور وہ راولپنڈی کے عسکری ادارہ برائے امراض قلب میں داخل ہو گئے۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا؟

انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں۔ جج صاحبان پر خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے دبائو ڈالنا اور مخصوص مقدمات میں اپنی مرضی کے بنچ بنوا کر فرمائشی فیصلے لئے جانے کے سبب عدلیہ مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ اس حوالے سے اب کوئی طریقہ کار وضع کرنا چاہئے۔ لیکن انصاف کی کرسی پر براجمان جج صاحبان کو بھی ’’اچھی‘‘ اور ’’بری‘‘ مداخلت کے تصور سے باہر نکلنا چاہئے۔ کسی خواہش ،فرمائش ،شوقِ کمال، خوف زوال ،پانے کے خمار یا کھونے کے آزار میں ضمیر جاگنے کی روش ختم ہونی چاہئے۔