میڈیا، 23 مارچ اور رمضان پروگرام

March 29, 2024

درحقیقت 1940کی قرارداد، اساس پاکستان ہے، پچاس سال پہلے ہم یوم پاکستان کو جس طرح مناتے تھے، وہ نقشہ لب و لہجہ اور تاریخ بدل چکی ہے، سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے بھی ہم اسی طرحفوجی پریڈکرتے اور دیکھتے تھے مگر اس وقت شاید اسکرپٹ اور رائٹر لئیق احمد صاحب کے ہوتے تھے، زمانہ بدل گیا اس دفعہ اسکرپٹاور رائٹر دو فوجی افسر اور دو خواتین فوجی افسر ان کا بیانیہ تھا۔ ہر چند لئیق صاحب بھی فوجیوںکے ساتھ مل کر فضائیہ، بحریہ اور زمینی فوج سے متعلق الفاظ لکھتے تھے۔ ہر چند ہمارے فوجی جوانوں نے شاید اسکرپٹ بھی خو دلکھا تھا اور شاید ریہرسل بھی زیادہ نہیںکی تھی، اس لیے اگر پریڈ کا حوالہ دے رہے تھے وہاںکچھ اور دکھائی دے رہا تھا۔ خیر یہ تو ٹیکنیکل باتیں ہیں جو تشنگی رہی وہ یہ تھی کہ اول تو قرارداد کا متن خود مختار مسعود صاحب نےبڑی محنت سے، مینار پاکستان پر لکھوا یا تھا۔ وہ ضرور دکھانا اور دہرانا چاہیے تھاہر چند کچھ الفاظ کی تبدیلی وقت کےمطابق تھی، سب سے اہم فرو گزاشت یہ تھی کہ مولوی فضل حق کے نام پر اسلام آباد میںسڑک تو ہے مگر نصاب سےلیکر آج کے اسکرپٹ تک میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ قرارداد مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔ میاںبشیر احمد نے مشہور زمانہ نظم ’’ ملت کا پاسباںہے محمد علی جناح‘‘ پیش کی تھی، باتیںتو اور بہت سی ہیںمگر 1970 تک پاکستان کی تاریخ کو فراموش کرنے کی زیادتی، ہماری ابھرتی ہوئی بلکہ گزشتہ پچاس سالہ لوگوںکو نہ بتانا! آخر جرمنی بھی تو دو حصوں میںتقسیم ہوا تھا جب تک وہ دو حصے رہے اس وقت تک مشرقی اور مغربی جرمنی لکھا جاتا رہا، ہر چند اب بنگلہ دیش الگ ملک ہی ہے اور ہم سے زیادہ ترقی یافتہ، ملکی معیشت اور آبادی میںہم سے بہتر ہے، خلاصہ اس سارے بیان کا یہ ہے کہ پرانے محاورے کے انداز میںکہ جس کا کام اسی کوساجے۔ہر چند آرمی میں شفیق الرحمن جیسے مستند لکھنے والے رہے ہیںمگر 23 مارچ کے اسکرپٹ اور بیان کیلئے پروفیشنل شخصیات مناسب رہتی ہیں، اپنے موضوع کو وسعت دیتے ہوئے کہہ رہی ہوں کہ میڈیا کو منظم کرنے کیلئے اسی فیلڈ کی شخصیت چاہیے ہوتی ہے، ہر چند خواجہ شاہد حسین یا اسلم اظہر جیسی نابغہ روزگار شخصیات نہیں پھر بھی قحط نہیںہے، اب بھی کچھ پڑھے لکھے لوگ زندہ ہیں، ان سے استفادہ کیا جائے تو شاید۔ 23 مارچ کی تقریرمیں بھی صدر پاکستان نے غربت مٹانے کے عزم کا اظہار کیا ۔ مگر میںجب ایم پی اے اور ایم این اے کو حاصل سہولتوں ،جن کو عیاشیاںبھی کہاجاسکتا ہے وہ اگر ماہانہ اعزازیہ سے لے کر سال بھر میںپورے خاندان کو ملنے والی مفت ٹکٹوں اور اخراجات بیان کروں اور ان میںسے کتنے ہیںجو صرف حاضری لگواکر روزینہ لیتے اور کچھ خاموش رہ کر یا پھر نعرے اور بڑھکیں مار کر خود کو اس اعزازیہ اور سہولتیں جس میںرہائش اور اسمبلی کے کیفےٹیریا میںبہت کم قیمت پرملنے والی خوردنی اشیاشامل ہیں،پھر سوال تو بنتا ہے کہ جس کام کیلئے انہیں اعزاز یہ کھانا ملتا ہے، اس میںکیا کمی نہیںکی جاسکتی ہے، اسی طرح 70 فیصد جو لوگ سطح غربت میںہیں ان کو وظیفے نہیںہنر سکھائیں اور تربیت کے دوران وظیفہ دیںاور کورس مکمل ہونے پر باقاعدہ ملازمت۔ یہ ساری دنیا میں رائج ہے۔ بی آئی ایس پی جیسے یا پھر فری دستر خوان کبھی غربت ختم نہیںکرسکتے، ہمارے یہاںتو بچے کیا ہر عمر اور جنس کے لوگ مانگتے دکھائی دیتے ہیں، خاص کر افغانی لڑکیوںکو مانگنےاور پھر برگر کھاتے ہم دیکھتے ہیں، خواجہ سراؤں کا قبیلہ فل میک اپ کے ساتھ ہر شام ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔یہ میں حکومت سے کیوں پوچھ رہی ہوں، یہ تو آئی ایم ایف کے سر پر رکھ کر پھر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا رہے ہیں مگر ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتاتھے۔

اب چوں کہ رمضان ہے تو پھر بہت اچھا یہ نہیںہے کہ نعت خواں فلموںگیتوںکی دھنوںپر لکھی ہوئی نعتوں کا ورد کرتے یا پھر تشریح قرآن و حدیثکرتے ہوئے، وہی پرانی تحقیق دہراتے رہیں، اس کے علاوہ آج کل کے نوجوان جو بیرون مل کسے اسلامک اسٹڈیز میںڈاکٹریٹ کرکے آئے ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جائے تاکہ نہ صرف نوجوان نسل بلکہ پڑھے لکھے قرآن کی تشریح سے نا آشنا اور اراکین اسلام پر تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کرسکتے ہیں، گھروںمیں میلاد پڑھنے والی خواتین کو بھی شامل کیا جائے کہ رمضان کے فضائل پر گفتگو ہو۔

ایک اور اہم بات ہم ملک میںیگانگت کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں، اب یہ بتائیے، ہمارے ساری زبانوں کے صوفی شعرا نے جو کچھ لکھا ہے اور جو ہمارے فنکاروں نے اور کہیں کہیں قوالوںنے بھی اظہار کا ذریعہ بنایا تو پھر ان مستند قوالوںاور عابدہ پروین جیسے صوفی گائیک نےرمضان کی برکتوں کے فروغ اور ملکی زبانوںکے پیغام محبت اور رسول خدا کی شان میںجو ریکارڈکیا ہے، اس کو بھی شامل کریں، ہندو شاعروں نے بھی حمدیہ غزلیںلکھی ہیں، مگر ان ساری باتوںکو سمجھنے کے لیے میڈیاکو ذہن رسابھی چاہئے۔

ان موضوعات سے وابستہ بی بی مریم کی بات بہت صائب ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو اپنی مادری زبانیںپڑھائی جانی چاہئیں۔اس تصور کی کئی جہتیں ہیں، مثلاً سب سے پہلے تو نصاب بنانے والے عالم ہوںاور متعلقہ زبان کے ماہر ہوں، اسی طرحمادری زبان پڑھانے والے اساتذہ بھی درکار ہوںگے، صرف پختہ ارادہ چاہیے، پھر سب کچھ ہوجاتا ہے، پینتیس برس پہلے جب پنجابی ماسٹر ز شروع کیا گیا تھا تو صوفی صاحب ڈاکٹر نذیر، آصف خان اور شریف کنجاہی بھی تھے، اب تو ان کے پڑھائے ہوئے ڈاکٹریٹ بھی کرچکے ہیں، ان کو اہمیت دیں تو علم اور تہذیب میںتوازن قائم ہوسکے گا۔ یہ پیرا گراف لکھتے ہوئے میرے سامنے 23 مارچ کو دیے جانےوالے حسن کارکردگی کے انعامات کی فہرست موجود ہے، پہلی اور آخری خوشی تو یہ ہے کہ شیما کرمانی کے توسط، رقص اور ساڑھی کو ایوان بالا میںعزت ملی پھر یہ کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسلام آباد میں 112 زعما کو انعامات دیے گئے جبکہ پنجاب میں 132 ، کے پی میں 59 اور بلوچستان میں15 انعامات دیے گئے۔ ان میں سب سے مختلف پشاور کے پشاوری چپل ساز نور دین کو بھی حسن کارکردگی کا حقدار ٹھہرایا گیا، اسی طرح دیگر فنون اور نوجوانوںمیںموسیقی اور فلم میںارتقائی طور پر صحیح، کوشش کرنے والوںکو بھی شامل کیا جائے، اتنے ڈھیر سے انعامات دیکھ کر یہ احساس نہیںہونا چاہئے کہ ہمارے ملک میںپڑھے لکھے لوگ بہت کم ہیں۔