’’فتحِ مکہ‘‘ حق و باطل کا فیصلہ کن معرکہ

March 29, 2024

ڈاکٹر سعید احمد صدیقی

فتح مکہ کا مثالی واقعہ تاریخ ساز بھی ہے اور اقوام عالم کے لیے تاقیامت تاریخی دستاویز بھی۔ وحی الٰہی کی تصدیق نے انسانیت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا کہ ہرفاتح اس تاریخی اور حقیقی شاہکار سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے رویے اور سلوک کا جائزہ لے، دنیوی فاتحوں اور بادشاہوں کے مقابلے میں رحمت مجسم فخر دو عالم ﷺ کی شان رحیمی و کریمی کو پیش نظر رکھے۔

ہادی عالم نبی آخر الزماں ﷺ کا سب سے مقدم فرض توحید خالص کا احیاء اور حرم کعبہ کو بتوں کی آلائش سے پاک کرنا تھا۔ توحید کی اشاعت اور اعلائے کلمۃ اللہ تھا۔ خانۂ کعبہ حرم محترم جو سیدنا ابراہیمؑ کی یادگار تھا،اس کی آغوش میں 360 بت جاگزیں تھے۔ ان میں ہبل بھی تھا جو بت پرستوں کا خدائے اعظم سمجھا جاتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر حد درجہ احتیاط رکھی گئی کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو، اہل ایمان کو یہ تو پتا تھا کہ جہاد کے لیے جارہے ہیں لیکن کہاں؟ اس کی اکثر کو خبر نہ تھی۔ ابتدا میں چند کبار صحابہؓ کو صرف اس کا علم تھا۔

رحمۃللعلمین ﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: سامان سفر اور ہتھیار درست کرلیں، لیکن اس کا کسی کو پتا نہ چلے، مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کا حکم ہوا۔ اعلان جہاد کے بعد آپ نے اطراف و جوانب کے حلیف قبائل میں وفود روانہ فرمائے۔ قریب والوں کو حکم تھا کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں مدینے پہنچ جائیں، راستے میں آباد قبائل کو حکم تھا کہ ہتھیاروں کے ساتھ تیار رہیں، جب ہم تمہاری بستیوں سے گزریں تو ہماری صفوں میں شامل ہو جانا۔

مدینے سے روانگی کے وقت تعداد سات ہزار تھی، دوران سفر راستے میں دیگر قبائل کی شمولیت کے باعث تعداد دس ہزار ہو گئی۔اپنی آمد کو خفیہ رکھنے کے لیے آپؐ نے عام راستے سے ہٹ کر نامعلوم اور چکر دار راستہ اختیار فرمایا، مقام کدیر سے چل کر شام کے قریب مسلمانوں کا یہ لشکر مرالظہران پہنچا، جس کا موجودہ نام وادی فاطمہ ہے، یہ مکہ سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔آپ ﷺ لشکر کے ہمراہ بے خبری کے عالم میں اہل مکہ کے سروں پر پہنچے اور حکم دیا ہر قبیلہ اپنی آگ الگ جلائے۔

اہل مکہ نے جب ہر طرف آگ کے الائو روشن دیکھے تو ان کے دل دہل گئے۔فاتح مکہﷺ نے مکہ پہنچ کر حکم دیا کہ علم مقام جیحون پر نصب کیا جائے۔ حضرت خالدؓ کو حکم ہوا کہ فوجوں کے ساتھ بالائی حصے کی طرف آئیں اور اعلان کردیا گیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، ابوسفیان کے ہاں پناہ لے گا یا دروازہ بند کر لے گا (یا خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا) اسے امن دیا جائے گا۔

تاہم قریش کے ایک گروہ نے مقابلے کا قصد کیا اور حضرت خالدؓ کی فوج پر تیر برسائے، چناںچہ تین اصحابؓ نے شہادت پائی۔ حضرت خالدؓ نے مجبور ہوکر جوابی حملہ کیا تو یہ لوگ 13 لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے تلواروں کا چمکنا دیکھا تو حضرت خالدؓ سے باز پرس کی، لیکن جب معلوم ہوا کہ ابتدا مخالفین نے کی تھی تو رحمۃ للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا قضائے الٰہی یہی تھی۔(سیرۃ النبی،شبلی نعمانی)

سرکار دو عالم ﷺ کا یہ پہلا دربار عام تھا،جس کے مخاطب صرف اہل مکہ ہی نہیں، بلکہ تمام عالم انسانیت تھے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مددکی اورتمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا،جان لو تمام مفاخر،تمام انتقام،خون بہائے قدیم، تمام خون بہا میرے قدموں کے نیچے ہیں، صرف حرم کعبہ کی تولیت اور حجاج کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہے۔ اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار،اللہ نے مٹا دیا، تمام لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ لوگو! تمہیں ہم نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپس میں ایک دوسرے کوشناخت کر سکو۔ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا، واقف کار ہے۔ ‘‘( صحیح بخاری)

خطبے کے بعد آپﷺ نے مجمع کی طرف دیکھا تو جباران قریش سامنے تھے ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں سب سے پیشرو تھے۔ وہ بھی تھے جن کی زبانیں نبوت پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں،وہ بھی تھے جن کی تیغ و سناں نے پیکر قدسیﷺ کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت اللہ کے رسول ﷺکی ایڑیوں کو لہولہان کردیا کرتے تھے،وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خون نبوت ﷺ کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی، وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینے کی دیواروں سے آکے ٹکراتا تھا۔

وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے۔ رحمت عالم ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور خوف انگیز لہجے میں پوچھا تمہیں کچھ معلوم ہے؟میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ یہ لوگ اگرچہ ظالم تھے،شقی تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس تھے، پکار اٹھے۔ آخ کریم وابن اخ کریم ’’آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے صاحبزادے ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ) اس کے بعد زبان نبوت سے تاقیام قیامت بازگشت رہنے والا تاریخی جملہ ادا ہوا۔’’تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘

نماز کا وقت ہوا نگاہ نبوت بلال حبشیؓ کی طرف اٹھیں۔ اللہ اللہ کیا منظر تھا،ابوبکرؓ و عمرؓ،عثمانؓ و علیؓ اور تمام کبار صحابہؓ پہنچے اور بلالؓ کعبہ کی چھت کے اوپر اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر رہے ہیں، دنیا دیکھ لے کہ عظمت و کبریائی اور بڑائی صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی کی زبانی سنیے،وہ سیرت النبی ﷺ میں رسول اکرم ﷺ کے دشمنوں سے عفو و درگزر اور حسن سلوک کے ضمن میں رقم طراز ہیں:’’انسان کے ذخیرۂ اخلاق میں سب سے زیادہ کم یاب اور نادرالوجود چیز دشمنوں پر رحم اور ان سے عفو و درگزر ہے، لیکن حامل وحی نبوت کی ذات اقدس میں یہ جنس فراواں تھی۔

دشمن سے انتقام لینا انسان کا قانونی فرض ہے،لیکن اخلاق کے دائرے میں آ کر یہ مکروہ تحریمی بن جاتی ہے۔ تمام روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا دن تھا، جب و کینہ خواہ سامنے آئے جو آں حضرتﷺ کے خون کے پیاسے تھے اور جن کے دست ستم سے آپؐ نے طرح طرح کی اذیتیں اٹھائی تھیں، ان سب کو دربار نبوت سے پروانہ آزادی عطا ہوا۔(سیرت النبیؐ،سلیمان ندوی)