’’اعتکاف‘‘ رمضان کے آخری عشرے کی اہم عبادت

March 29, 2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

رمضان کے آخری عشرے میں روزے کے بعد اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔ چناںچہ قرآن میں جس مقا م پر روزے کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، اُسی مقام پر اعتکاف کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

’’اعتکاف‘‘ کا مادہ’’ع ک ف‘‘ (عکف) ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو روکنا یا رکنا، موتیوں کو لڑی میں پِرَونا ، بالوں کو سنوارنا ، یا کنگھی کئے ہوئے بال، اس اعتبار سے اعتکاف کا مطلب ہو گا۔ اپنے آپ کو تمام دنیاوی امور سے اللہ کی محبت میں روک لینا، اپنے آپ کو اللہ کی یاد پر جما دینا اور مسجد میں گوشہ نشین ہوکر اپنی منتشر فکرو خیال کو اللہ کے ذکر کی لڑی میں پُرو کر قرآن کی فکر سے ہم آہنگ کرنا اور اپنی روح کا تزکیہ کرنا یعنی ظاہراور باطن کو سنوانا بنانا۔

قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ رمضان کے روزوں اور مسجد سے اعتکاف کو خصوصی تعلق ہے۔ نبی کریم ﷺ کے قول و عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ’’نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وصال فرمایا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہراتؓ اعتکاف کا اہتمام کرتی رہیں‘‘۔(بخاری و مسلم)

رمضان میں نبی کریم ﷺ کا ذوق عبادت حد درجہ بڑھ جاتا تھا۔ رمضان کے آخری ایام میں تو خاص طور پر آپ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے اور خود کو رمضان کے آخری دس دن بالکل اللہ کے لئے فارغ کرلیتے اور مسجد میں معتکف ہو جاتے تھے۔ اعتکاف کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بندۂ مومن ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ سے لولگائے اور اس کے آستانے پر جاکر پڑ جائے اور اسی کی یاد اور عبادت میں مشغول ہو جائے۔ معتکف ہو کر بندہ اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس کا حقیقی تعلق اور عشق اپنے رب کے سوا کسی سے نہیں ہے، اُس کی جلوت و خلوت دونوں اللہ ہی کے لیے ہیں۔

وہ ہر حالت میں اللہ ہی کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اعتکاف کی روح درحقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو اللہ کے لئے فارغ کردینے پر قادر ہو سکے۔ روزے اور اعتکاف میں مقصد اور عمل دونوں لحاظ سے انتہا درجے کی مناسبت اور اتحاد پایا جاتا ہے۔ اسی لئے روزے کو اعتکاف کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے اور رمضان کو اعتکاف کا بہترین زمانہ سمجھا گیا ہے۔ روزے کی خصوصیت کو مزید تقویت بخشنےکے لئے قدیم شریعتوں میں خاموش رہنے کو بھی جزو بنایا گیا تھا اور اس طرح خاموشی کا روزہ بھی مشروع ہوا تھا۔

احادیث میں اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جب معتکف اعتکاف کرتا ہے تو وہ گناہوں کو اس طرح بند کردیتا ہے جس طرح نیکو کار کہ اس میں صرف نیکیاں ہی جاری رہتی ہیں۔‘‘(ابن ماجہ، مشکوٰہ)یعنی یہ کہ معتکف چونکہ اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے مسجد سے باہر نہیں جاسکتا ،اس لئے با ہر کے لوگ جو نیکیاں بھی کرتے ہیں ۔

مثلاً نمازِ جنازہ میں شرکت، بیمار کی عیادت، تبلیغ اور درس و تدریس وغیرہ معتکف ان اعمال کو اعتکاف کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا ،مگر اللہ تعالیٰ ان تمام نیکیوں کا ثواب بغیر کئے معتکف کو عطا فرماتا ہے گویا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نیکیوں کے ثواب کا دریا جاری فرمادیتا ہے۔

دوسرے یہ کہ معتکف کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ جب تک حالتِ اعتکاف میں ہوتا ہے، اس کا ہر لمحہ ، اس کا کھانا پینا، سونا جاگنا حتیٰ کہ ایک ایک سانس عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’ جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے معتکف اور جہنم کے درمیان زمین وآسمان کے درمیانی فاصلے سے زیادہ فاصلے والی تین خندقیں حائل فرمادیتا ہے۔‘‘ (الحاکم، البیہقی)

ایک اور حدیث ِ نبوی ﷺ سے معتکف کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’کچھ لوگ مساجد کے لئے میخ بن جاتے ہیں (یعنی ہر وقت مسجد میں رہتے ہیں) فرشتے ان لوگوں کے ہم نشین ہوتے ہیں اور اگر کبھی یہ لوگ مسجد سے غائب ہو جائیں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں اور جب یہ بیمارہوتے ہیں تو فرشتے اِن کی عیادت کرتے ہیں اور جب یہ حاجت مند ہوتے ہیں فرشتے اِن کی اعانت کرتے ہیں‘‘ رمضان کے آخری عشرے کے اعتکاف کی فضیلت اس حدیث میں بیان ہوئی ’’ جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرتا ہے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمرے کرنے کے برابر ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد)

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ایک فائدہ اورپوشیدہ حکمت یہ ہے کہ یہ رمضان کی آخری طاق راتوں میں شب ِ قدر کے حصول کا موجب بنتا ہے کیونکہ شبِ قدر کا تعین نہیں کیا گیا، تاکہ مسلمان آخری عشرے کی طاق راتوں میں عبادت کرکے اس رات کو تلاش کریں، مگر عام افراد کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ان راتوں کو عملاً مکمل طور سے اللہ کی عبادت میں گزاریں، مگر معتکف کے لئے یہ بات بہت ہی آسان ہوتی ہے کہ اگر وہ سو رہا ہے تو اس کا سونا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اس طرح اسے شبِ قدر کا ایک ایک لمحہ عبادت میں گزارنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مسلمانوں کو اجتماعی طور پر اس سنت کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ احادیث میں اس کی انتہائی تاکید کی گئی ہے۔

خود نبی اکرم ﷺ کے وصال تک اس پر مداومت رہی ،اس لئے اگر مسلمان اس سنت کو اجتماعی طور پر چھوڑ دیں گے تو سب گنا ہ گارہوں گے اور اگر بستی کے کچھ افراد بھی اس سنت کا اہتمام کر لیں تو چونکہ یہ سنت کفایہ ہے، اس لئے چند افراد کا اعتکاف ساری بستی یا محلے کی طرف سے کافی ہو جائے گا، چنانچہ ہر محلے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے سے اس بات کی تحقیق کرلیں کہ ہماری مسجد میں کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھ رہا ہے کہ نہیں ،اگر کوئی شخص بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھ رہا تو تمام محلے والوں کوچاہیے کہ کسی کو اس سنت کی ادائیگی کے لئے تیار کریں۔

…اعتکاف … دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے۔ تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم فرما دیتا ہے،جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرے تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا۔