اعتکاف کن کن صورتوں میں فاسد ہوجاتا ہے؟

March 30, 2024

--- فائل فوٹو

سوال: اعتکاف کن کن صورتوں میں فاسد ہوجاتا ہے ؟ (محمد ابدال ، کراچی )

جواب:رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ’سنّتِِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفایہ‘ ہے ،جس کے لیے روزہ شرط ہے۔

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’مُعتکف کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جائے، نہ کسی جنازے میں شریک ہو، نہ کسی عورت کو چھوئے، نہ ازدواجی عمل کرے، نہ ہی کسی ناگُزیر ضرورت کے بغیر کسی ضرورت کے لیے (مسجد سے) باہر نکلے اور روزے کے بغیر اعتکاف نہ کرے اور جامع مسجد میں (ہی اعتکاف کرے۔‘ (سُنن ابو داؤد ،رقم الحدیث:2473)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مُعتکف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’وہ گناہوں سے رکا رہتاہے اور (باوجود اِس کے کہ وہ مسجد میں ٹھہرا ہوا ہے اور اُن نیکیوں کے لیے مسجد سے نہیں نکلتا لیکن) اُس کے لیے نیکیاں جاری رہتی ہیں جیسے کہ وہ ان تمام نیکیوں کا کرنے والا ہے‘، (سُنن ابن ماجہ ،رقم الحدیث:1781)۔

اعتکاف کی صحت کے لیے درج ذیل مفسدات سے بچنا ضروری ہے ۔

۱۔ معتکف کا طبعی و شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، رات میں نہ دن میں۔ اگر بلاضرورت ایک لمحہ کو بھی نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔

(الف) شرعی عذر سے مراد غسلِ واجب یا وضو کے لیے مسجد سے نکلنا۔
(ب) طبعی عذر سے مراد قضائے حاجت کے لیے مسجد سے نکلنا۔

۲۔ اگر مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ پڑھنے کے لیے دوسری مسجد میں جانا عذرِ شرعی ہے، اس کے لیے اذان جمعہ کے بعد نکلے۔

۳۔ کسی وقت کوئی حادثہ ہوجائے تو جان ومال بچانے کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے۔

۴۔ مریض کی عیادت اور نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے اگر مسجد سے باہر گیا، تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

۵۔ بیوی سے جماع کرنا، بوسہ دینا، لمس اور معانقہ کرنا یہ تمام امور ناجائز ہیں، ان سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

۶۔ معتکف کو بے ہوشی یا جنون طاری ہوا اور اتنا طول پکڑ گیاکہ روزہ نہ ہوسکے تو اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے اور قضا واجب ہے۔

۷۔ مرض کے علاج کے لیے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔

۸۔ اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، اس لیے روزہ توڑنے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عُذر ،جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو ، ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہوگیا جو روزے کے منافی تھا مثلاً صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک کھاتے رہے یا غروبِ آفتاب سے پہلے ہی اذان شروع ہوگئی یا افطار کرلیا پھر پتاچلاکہ وقت سے پہلے افطار کرلیاہے، اس طرح بھی روزہ ٹوٹ جائے گا یا روزہ یاد ہونے کے باوجود کلّی کرتے وقت بے اختیار پانی حلق میں چلا گیا، تو ان تمام صورتوں میں روزہ جاتا رہا اور اعتکاف بھی فاسد ہوگیا۔

جن امور کی ممانعت(مثلاً جماع وغیرہ) اعتکاف کی وجہ سے ہے، اُن کے لیے مسجد سے نکلنا منع ہے، عمداً اور نسیاناً مسجد سے باہر نکلنے پر حکم یکساں ہے اور جن امور کی اعتکاف میں ممانعت روزے کی وجہ سے ہے، مثلاً کھانا، پینا، ان کے عمداً ارتکاب کی وجہ سے اعتکاف فاسد ہوگا اور بھول کر کرنے سے فاسد نہیں ہوگا۔

۹۔ مُعتکف کو غسلِ فرض اور غسلِ مسنون (جمعۃ المبارک کا غسل ) کے علاوہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
علامہ یوسف بن عمر الصوفی الکماروی لکھتے ہیں کہ ’معتکف کے لیے پانچ چیزوں کی وجہ سے مسجد سے نکلنا جائز ہے:
(۱) پیشاب (۲) پاخانہ (۳) وضو (۴) غسل خواہ فرض ہو یا نفل اور (۵) جمعہ پڑھنے کے لیے‘۔ (جامع المضمرات والمشکلات شرح مختصر القدوری (مخطوطہ) ص:170)۔

پہلے ہم نے اعتکاف کی حالت میں غسلِ مسنون (جمعہ کے غسل) کی ممانعت کا لکھا تھا مگر اب ان فقہی حوالہ جات کی وجہ سے ہم نے اس کے جواز کا قول کیا ہے۔

اعتکاف کیقضاء

اگر رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی نیت کی ہے اور بلا عذر یا کسی عذر کے سبب اعتکاف توڑ دیا، تو صرف ایک دن کی قضاء لازم آئے گی۔ اگر رمضان مبارک میں قضاء کرے تو رمضان کا روزہ اُس کے لیے کافی ہے، ورنہ غیر رمضان میں قضا کرنے کے لیے روزہ بھی لازم ہوگا۔

اگر آپ رحمتوں اور برکتوں والے اس ماہ مبارک سے متعلق مزید کسی دینی و دنیاوی شرعی مسائل کا حل جاننا چاہتے ہیں تو دیے گئے لنک (https://ramadan.geo.tv/category/islamic-question-answers) پر کلک کیجئے۔