سیکرامنٹو میں نماز عید کا تاریخی اجتماع

April 11, 2024

فوٹو: فائل

امریکا، پاکستان اور دنیا بھر کی طرح امریکی ریاست کیلیفورنیا کے دارالحکومت سیکرامنٹو میں اس بار 10 اپریل بروز بدھ ہزاروں مسلمانوں نے ایمانی جوش و خروش مگر فلسطین، کشمیر، یمن، شام اور برما کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے جذبے کے ساتھ ایک ساتھ میں عیدالفطر منائی اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔

اس سے قبل عید کی نماز سیکرامنٹو ویلی کی سیکڑوں مساجد اور مراکز میں ادا کی جاتی تھی لیکن اس بار غزہ فلسطین میں 6 ماہ سے جاری اسرائیلی دہشتگردی اور بربریت سے معصوم بچوں سمیت ہزاروں مسلمانوں کی شہادت اور ہزاروں بستیوں اور عمارتوں کی تباہی کی وجہ سے یہاں کے آئمہ اور کمیونٹی لیڈرز نے فیصلہ کیا کہ اس بار عید کا اجتماع اور نماز کسی بڑی جگہ پر ایک ساتھ ادا کی جائے۔

چنانچہ اس کےلیے ایک بڑے کمپلیکس کال ایکسپو (کیلیفورنیا ایکسپو) کا انتخاب کیا گیا۔ اس میں ایک انداز ے کے مطابق 25 ہزار سے زائد نمازیوں نے شرکت کی، جو سیکرامنٹو کی تاریخ کا سب سے بڑا عید کا اجتماع تھا۔

اس بار ایک بڑے مرکزی مقام پر اس طرح کے بڑے بڑے عید کے اجتماعات منعقد کیے گئے تاکہ امریکی حکومت اور سیاسی پنڈتوں کو ایک واضح پیغام دیا جائے اور انہیں احساس دلایا جائے کہ امریکا میں مسلمان ایک بڑی طاقت ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم ان یو ایس میٹر، ان کے کاز، ان کے مفاد، ان کے حقوق اور ان کے ووٹ کو ترجیح دینا ہوگی اور وزن دینا ہوگا۔

عید کی نماز کا وقت ساڑھے دس بجے اور تکبیرات شروع کرنے کا وقت ساڑھے نو بجے مقرر کیا گیا تھا لیکن لوگ نو بجے سے بھی پہلے سے آنا شروع ہوگئے تھے اور تکبیرات عید کا آغاز ہوگیا تھا۔ بلند آواز سے فرزندان توحید تکبیرات عید کی شکل میں اللہ تعالی کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں۔

عید گاہ میں داخلے کے مقام پر چار گیٹ بنائے گئے تھے جہاں سیکیورٹی چیک کی مشینوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ لوگوں کو اپنی گاڑی پارکنگ لاٹ میں کھڑی کر کے کافی دور پیدل جانا پڑا اور پھر طویل لائن میں کھڑا ہونا پڑا۔ جہاں سے چیکنگ گیٹ تک جانے کےلیے ڈیڑھ گھنٹے کا عرصہ لگا۔ عیدگاہ پوری طرح بھر گئی تھی۔ پھر بھی ہزاروں لوگ باہر قطار میں لگے تھے۔ نماز کا وقت پونے گیارہ بجے تک آگے کرنا پڑا اور زیادہ لوگوں کی وجہ سے عید کی نماز کی دو جماعتیں کروائی گئیں۔

عید کے اس بڑے اجتماع کی امامت کےلیے امریکا کے ایک بڑے اسکالر امام صعیب ویب کو دعوت دی گئی تھی۔ جو سفید فام امریکی ہیں اور انہوں نے جوانی میں صرف 20 سال کی عمر میں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر 1992 میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر اپنے آپ کو دینی علوم کی تحصیل کے لیے وقف کردیا تھا۔

انہوں نے امریکی یونیورسٹیوں سے فراغت کے بعدالازہر یونیورسٹی سے اسلامی علوم میں سند لی اور امریکا کے بڑے بڑے اسلامی مراکز اور مساجد میں امامت اور خطابت کے مناصب پر فائز رہے۔ ان کا شمار امریکا اور یورپ میں چند بڑے دینی اسکالرز میں ہوتا ہے۔ جن کو مغربی دنیا میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔

انہوں نے اپنے خطبے میں کہا کہ امریکا اور مغرب میں مسلمان اب ایک بڑی طاقت ہے جس کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے۔

صعیب ویب نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اسی طرح متحد ہو کر اپنی طاقت کا اظہار کریں اور آنے والے الیکشن میں متحد ہو کر اس کا عملی مظاہرہ کریں۔

انہوں غزہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی کی شدید مذمت کی اور کہا کہ غزہ میں دنیا کی تاریخ کا بڑا ظلم جاری ہے جس کو چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 34 ہزار سے زیادہ شہادتیں ہو چکی ہیں۔ عالمی ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔ شہدا میں کمسن معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ بڑے بڑے اسپتالوں اور عمارتوں اور ہزاروں مکانات کو مسلسل بمباری سے تباہ کردیا گیا ہے۔ خوراک اور ادویات کے راستے بند کردیے گئے ہیں۔ انہوں نے مسلم ممالک کی سرد مہری اور خاموشی پر صدمے کا اظہار بھی کیا۔

عید کے اس بڑے اجتماع میں دنیا بھر کے مسلمان اپنے خاندانوں اور روایتی ملکی لباس میں شریک ہوئے۔ نماز کے بعد کھلے میدان میں درجنوں ٹرکوں اور گاڑیوں میں کھانے پینے کے اسٹال لگائے گئے تھے۔ بچوں کے کھیل کود کےلیے جھولے اور دوسرے انتظامات کیے گئے تھے، عورتوں کے بازار بھی موجود تھے۔

نمازیوں کی اکثریت نے فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے القدس لنا کے مفلر اور بڑے بڑے رومال پہن رکھے تھے۔ عید کی یہ گہما گہمی چار بجے شام تک جاری رہی۔

جو لوگ اس عید گاہ میں نہیں آسکے انہوں نے اپنے علاقے کی مساجد میں نماز عید ادا کی۔ نماز کے آغاز سے قبل امام صعیب ویب نے ایک نومسلم کو کلمہ شہادت پڑھا کر دائرہ اسلام میں داخل کیا تو ہزاروں کا مجمع اللّٰہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ امام نے نومسلم کےلیے اسقامت کی دعا بھی کروائی۔