کمزور کا ہاتھ پکڑو!

April 18, 2024

مشہور روسی ناول نگار ٹالسٹائی نے ایک بار لکھا تھا’’دنیا کے سب سکھی، خوش گھرانے ایک جیسے ہوتے ہیں، مگر ہر دکھی گھر کی ایک الگ کہانی ہے۔‘‘ایسے ہی چیریٹی تنظیموں کی الگ الگ کہانیاں ہیں،ایک اچھوتی کہانی مسلم ہینڈز انٹرنیشنل کے بانی پیر سید لخت حسنین کی ہے۔ منوبھائی نے ایک کالم”بھیا میرے آنسو پونچھو“کے نام سے لکھا ۔ ا س میں ایک معذور لڑکے کی بہن کی استدعا بیان کی گئی جو اپنے بھائی کیلئے وہیل چیئر لینے کی متمنی تھی۔ وہ لڑکا بیماری کی وجہ سے سہارے کے بغیر بیٹھ نہیں سکتا تھا،اس نے لیٹ کر کسی نہ کسی طرح میٹرک تک تعلیم حاصل کی،مگر آگے پڑھنے کے لئے مشکلات بہت بڑھ گئی تھیں،اسے وہیل چیئر کی اشد ضرورت تھی۔ سید لخت حسنین تب انگلینڈ میں بطور خطیب مسجد میں ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے وہ کالم روزنامہ جنگ لندن میں پڑھا اور متاثر ہوئے۔ مسجد کے دیگر ساتھیوں اور نمازیوں کے ساتھ مل کر ڈونیشن جمع کی اور اس لڑکے کو وہیل چیئر بھجوائی۔ وہ نوجوان بہاولپور کا رہائشی تھا۔ اس نے بعد میں اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر اپنے جیسے معذور بچوں کے لئے ایک اسکول بنایا ۔ مسلم ہینڈز آج بھی اس اسکول کی مالی معاونت کر رہی ہے۔ سید لخت حسنین جب بھی مسلم ہینڈز کے قیام کی داستان سناتے ہیں،ان کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پرطمانیت آمیز مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ پیر سید لخت حسنین کا تعلق وزیرآباد کے تاریخی قصبہ سوہدرہ سے ہے، ان کے والد پیر بشیر حسین شاہ نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا،پرورش بڑے بھائی سید محمد صفی المعروف چن پیرشاہ صاحب نے کی۔ ان کی دینی ودنیاوی تعلیم بھیرہ شریف کی معروف درسگاہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں پیر جسٹس کرم شاہ صاحب کے زیرسایہ ہوئی۔ 1990-91میں تبلیغ دین کی نیت سے انگلینڈ چلے گئے،اس کے بعد خدمت خلق کی طرف توجہ ہوئی ۔ ان دنوں بوسنیا کا بحران عروج پر تھا۔ سید لخت حسنین نے بوسنیا کے ستم رسیدہ مسلمانوں کے لئے ریلیف ورک شروع کیا۔ انگلینڈ سے کنٹینر بوسنیا بھجوائے جاتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تب ان کے ویزے کے مسائل تھے اور وہ بطور وزیٹر رہ رہے تھے۔ یار لوگ سمجھاتے کہ آپ کس چکر میں پڑے ہیں،آپ کا تو ویزا ہی مستقل نہیں۔ لخت حسنین سوچتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت کی جائے۔ ویسا ہوا۔ انہیں ویزا مل گیا۔ وہ پاکستان آئے اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے مشاورت کی اور پھر 1993میں نوٹنگھم ہی میں مسلم ہینڈز تنظیم قائم ہوئی۔ ایک کمرے کے دفتر سے شروع ہونے والا یہ سفر آج رب کریم کے فضل سے بے پناہ پھیل چکا ہے۔ دنیا کے پچاس ممالک میں ریلیف ورک ہو رہا ہے۔ پیر سید لخت حسنین نے اپنے فلاحی کاموں کی ابتدا پاکستان سے کی،یہاں پر پچھلے تیس برسوں میں بے شمار کام کئے، بہت سے اہم پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب یا کوئی اور آفت ہر جگہ مسلم ہینڈز کے رضاکار ستم رسیدہ لوگوں کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ پاکستان میں مسلم ہینڈز کا بڑا کام تعلیم کے شعبے میں ہے۔ 200 کے قریب اسکول چلا رہے ہیں جہاں چالیس ہزار کے قریب طلبہ کو کوالٹی تعلیم دی جا رہی ہے۔ تعلیم کے علاوہ مسلم ہینڈز نے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے بھی بہت کام کیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ہزاروں کمیونٹی پمپس وغیرہ لگا چکے ہیں۔ تھرپارکر میں بہت سا کام کیا۔ کشمیر میں100 واٹر اسٹوریج بنائے تاکہ مقامی آبادی کے لئے آسانی پیدا ہو۔میر پور میں 50 واٹر پلانٹ لگائے گئے۔ خیبر پختون خوا میں کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب خاص کر راجن پور میں جہاں ایسی جگہیں بھی ہیں جن پر جانور اور انسان اکھٹے پانی پیتے ہیں، وہاں پر مسلم ہینڈز ساڑھے چار سو فٹ بور کر کے میٹھے پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگا رہی ہے جنہیں سولر سسٹم کے ذریعے چلایا جا رہا ۔ کراچی میں بھی کئی آر او پلانٹ لگ چکے ہیں،بدین، سجاول اور دیگر علاقوں میں بھی یہ کام جاری ہے۔ بلوچستان میں بہت سی جگہوں پر یہ پروجیکٹس چل رہے ہیں۔ حکومت پاکستان سے ستارہ قائداعظم جیسا باوقار صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے۔ مسلم ہینڈز کا اپنی نوعیت کابہت ہی قابل تعریف کام ہے۔ اپنی اپنی سطح پر ہمارے ہاںکئی اور اچھے ادارے بھی لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔

ان میں مستحق ٹیلنٹڈ طلبہ کی مدد کے لئے کام کرنے والی فلاحی تنظیم ’’کاروان علم فاؤنڈیشن ‘‘کا نام لینا بڑا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم نے اس کی بنیاد ڈالی۔ کاروان علم فاونڈیشن کے تحت ہزاروں طلبہ کی مدد کی جا چکی ہے،بے شمار طلبہ میڈیکل،انجینئرنگ اور دیگر شعبوں کی اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ عبدالباسط بلوچ ایک محنتی اور پرعزم نوجوان ہیں، جنہوں نے آغاز سحر پراجیکٹ کے تحت سیلاب میں فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ انہوں نے تونسہ،راجن پور اور دیگر متاثر ہ علاقوں میں بے پناہ ریلیف کام کیا۔ عبدالباسط بلوچ کا تعلق میڈیا سے رہا ہے،مگر جب وہ مظلوم پریشان حال عوام کے بیچ گئے تو اتنا اثر ہوا کہ اب ان کی زندگی کا بڑا مقصد فلاحی کام کرنا ہے۔ آغاز سحر فائونڈیشن کے تحت یہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے کام کر رہے ہیں، درخت لگاتے ہیں، رمضان میں کئی جگہوں پر لنگر بھی جاری کئے،راشن بھی بانٹتے ہیں۔ اہم بات یہ کہ اپنی تشہیر سے بے نیازخاموشی اور سلیقے سے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں کہ کسی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔