میں نہ ہوں تو کچھ نہ ہو!

April 19, 2024

پاکستان شاید دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں سیاست اور جمہوریت کی آڑ میں ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور معاشی بہتری کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا قومی جرم نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایسا کرنے والے کو مقبول ’’رہنما‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جیل میں بھی ہو تو اس کو وہ تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جو نہ تو جیل مینو میں شامل ہوتی ہیں نہ ہی کسی اور قیدی کو حاصل ہوتی ہیں یعنی جیل میں بھی دو قانون اور جیل سے باہر ہوں تو بھی دو قانون۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ وہی رہنماعوام کو بیوقوف بنانے کیلئے ملک میں امتیازی قوانین کے خلاف علمبردار بھی بنے ہوتے ہیں، وہ اور ان کے ساتھی بجا طور پر کہتے ہیں کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ کیونکہ اگر جنگل کا قانون نہ ہوتا تو جو ہرزہ سرائی وہ دفاعی اداروں کی قیادت کے بارے میں کرتے آئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں تو ان کیخلاف سخت کارروائی ہوتی۔ ایسی کوششوں کا مقصد اداروں کو کمزور کرکے اور ان اداروں اور عوام میں دراڑیں ڈال کر ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے، کیا یہ سنگین جرم نہیں ہے۔؟ ملک کی معاشی بہتری کیلئے کی جانے والی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی مذموم کوششیں کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔؟ اگر یہ سب سنگین جرائم ہیں اور پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا کرنے کی اجازت تو درکنار بلکہ ایسے اقدامات کو سنگین ترین جرائم سمجھا جاتا ہے اور ان کیلئے سخت ترین سزائیں مقرر ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسے معاملات کو سیاسی مخالفت، اقتدار سے محرومی اور دیگر معاملات کے ساتھ گڈمڈ کرکے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا چہ جائیکہ کسی طرف سے ایسے فرد یا افراد کی سہولت کاری کی جاسکے یا ان کو سہولیات مہیا کی جاسکیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے پہلے کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں ہے پھر یہ مثال کیوں ہے اور ملک میں یہ جنگل کا قانون اور امتیازی سلوک کیوں ہے۔؟ جس آئین پاکستان کے تحفظ کے نام پر ذاتی مفادات کے حصول کیلئے تحریک چلانے کا ڈھونگ رچایا جاجارہا ہے اسی آئین کے مطابق تمام پاکستانی شہریوں کو بلاامتیاز برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ پھر کسی ایک فرد کے الگ سے اور امتیازی حقوق کیسے ہوسکتے ہیں باوجود اسکے کہ وہ اب بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ مذکورہ بالا کوششوں میں مصروف ہے۔

یہ سہولت کس قیدی کو حاصل ہے کہ وہ جیل میں ہوتے ہوئے بیانات جاری کرے اور وہ بیانات، پیغامات اور گفتگو اخبارات میں شائع اور ٹی وی چینلز پر نشر بھی ہو۔ بہرحال اس معاملے کو اب سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے اس لئے گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے کیونکہ اب ملک میں فتنہ فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بانی پی ٹی آئی کا حالیہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جوں جوں ان کے خلاف قائم مقدمات فیصل ہونے کے قریب آتے جارہے ہیں ان کے حالیہ بیان سے ان کی گھبراہٹ آشکار ہوتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کھونے کا احساس بھی ان کو مزید پریشان کئے جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دن ان کیلئے مزید مشکلات لانے والے ہیں اور اسی وجہ سے آنے والے دنوں میں اس پریشانی کے سبب وہ مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ انتہائی باوثوق ذرائع نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے کہ بانی پی ٹی آئی یا ان سے وابستہ کسی فرد کے ساتھ یا کسی بالواسطہ ذرائع سے کسی بھی سطح پر کوئی مذاکرات یا ڈیل کی بات چیت چل رہی ہے۔ حالانکہ ان کی طرف سے مذاکرات کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ رائیگاں رہی۔ آئندہ بھی ان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کا امکان ہے نہ ہی کوئی تجویز زیر غور ہے۔

پاکستان کی سفارتی اور اس سے منسلک معاشی ترقی کے ضمن میں سعودی وزیر خارجہ کا اہم ترین وفد کے ساتھ دورہ ،اگلے ماہ سعودی کرائون پرنس اور ایرانی صدر کا دورہ پاکستان یقیناً ملکی معاشی استحکام کی جانب اہم سنگ میل ثابت ہونگے۔ عین ایسے مواقع پر پی ٹی آئی کے ’’وکیل رہنما‘‘ کی طرف سے سعودی عرب کے بارے میں من گھڑت تصوراتی کہانی پر مبنی منفی بیان بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر دینا ممکن نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار مبینہ طور پر سوچی سمجھی کارروائی ہے۔ کیونکہ ان دوروں کے نتیجے میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے اور امید کی جارہی ہے کہ سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان کے آئندہ ماہ متوقع دورہ پاکستان کے موقع پر سرمایہ کاری معاہدوں کو حتمی شکل دے جائے گی۔ ایسے موقع پر اس طرح کا بیان ملکی معیشت کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا نہیں تو اور کیا ہے۔ اگرچہ اب اس طرح کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیںلیکن اس سے قوم پر واضح ہونا چاہئے کہ بانی پی ٹی آئی کے عزائم کیا ہیں جو بظاہر یہ نظر آتے ہیں کہ اگر ان کی حکومت نہیں تو پھر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام بھی نہ ہو۔ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام میں ہی قوم کی خوشحالی مضمر ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کے عزائم مبینہ طور پر ریاستی مفاد اور عوام کی فلاح کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی صریحاً نفی ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور ان کے ساتھی ملکی سلامتی اور معاشی ترقی کیلئے شبانہ روز کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کے خلاف ہرزہ سرائی کو قوم نہ صرف مسترد کرتی ہے بلکہ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے پر زور دیتی ہے اور قوم اپنے ان محافظوں کے ساتھ کھڑی ہے۔