بھٹو خاندان کی خوشیاں اور آصفہ بھٹو زرداری

April 23, 2024

محترمہ بینظیر بھٹو نے جب پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی تو ایسے مشکل حالات تھے کہ بے گانے تو بے گانے، اپنے بھی دور ی اختیار کرنے پر مجبور تھے۔ ایسے میں صدر آصف علی زرداری کا شہید بی بی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں آنا بھی ان کے اور انکے خاندان کیلئے آبیل مجھے مار کے مترادف ثابت ہوا۔ خیر اس پر پھر کبھی بات ہو گی ، لیکن شہید بی بی کو شروع دن سے سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا، کبھی گھرپر قید ہوئیں تو کبھی سکھر شہر جس میں انہیںآگ جیسی گرمی میں سکھر سینٹرل جیل میں قید کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان بنیں بھی تو آزمائشوں کا دور ختم نہ ہوسکا۔ ایک طرف خاتون وزیر اعظم ہونے پر بعض مذہبی حلقے معترض رہے تو دوسری طرف شریف خاندان ضیاءالحق سے قربت کے نتیجے میں شہید بی بی کے خلاف سازشوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا۔سازشوں نے مرتے دم تک نہ شہید بی بی کا پیچھا چھوڑا اور نہ ہی ان کے خاندان کا۔ ان ہی سازشوں کے نتیجے میں شہید بی بی کے دو بھائی شہید ہوگئے، ان ہی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ آصف علی زرداری 11 سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے لاک اپ میں انکی زبان کاٹی گئی اور جان لیوا حملہ ہوا لیکن وہ ثابت قدم رہے ،جبکہ ان پر لگائے گئے سب الزام بعد میں جھوٹے ثابت ہوئے۔ شہید بی بی کی کردار کشی سے لے کر ان کے خلاف عملی اقدامات کرنے میں نہ ن لیگ نے کوئی کسر چھوڑی اور نہ ہی ہماری اسٹیبلشمنٹ نے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج اسٹیبلشمنٹ کو یقین آگیا ہے کہ جس جماعت کو ملک دشمن قرار دے کر سازشی بیانیہ بنایا جاتا رہا وہ ہی جماعت محب وطن ہے اور جس جماعت (پی ٹی آئی )کے لیے تمام دیگر مخالفین کے خلاف سازشیں کی جاتی رہیں ،آج یہ جماعت امریکہ اور بھارت کی زبان نہ صرف بولتی ہے بلکہ وہاںسے اس سیاسی جماعت کی فنڈنگ کی خبریں بھی سننے میں آئیں۔خیر گزشتہ ماہ آصف علی زرداری اور شہید بینظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ بھٹو بلا مقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں تو ان کے خلاف پی ٹی آئی نے سازشی بیانیہ گھڑنا شروع کردیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے لے کر پی ٹی آئی کے عہدیداروں تک ہر شخص آصفہ بھٹو زرداری پر تنقید کے نشتر چلاتا نظر آیا۔آصفہ بھٹو زرداری پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم 31سالہ بینظیر بھٹو اور ملک کے واحد دو بار صدر رہنے والے آصف علی زرداری کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران صدر زرداری کے ساتھ ایک جانا پہچانا چہرہ، آصفہ بھٹوزرداری جس طرح اپنے والد کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑی نظر آئیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جو کچھ آصفہ بھٹو زرداری کی حلف برداری کے موقع پر پی ٹی آئی نے کیا یہ آصفہ کیلئے غیر متوقع نہیں تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ جب جب بھٹو خاندان کو کوئی خوشی نصیب ہوئی تو مخالفین نے ہر بار کوشش کی کہ کسی طرح ان کی خوشی کو غارت کیا جائے۔ کچھ سال پہلے بختاور بھٹو زرداری کی شادی کے موقعے پر اسی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے ایک گھنائونا کھیل کھیلا جو اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور اسےمنہ کی کھانا پڑی۔ آصفہ بھٹو زرداری جس نشست سے ایم این اے منتخب ہوئی ہیں وہاں ان کے والد آصف زرداری کو کچھ ہفتے پہلے ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے جبکہ پی ٹی آئی کو ایک ووٹ بھی نہ مل پایا۔ دوسری طرف شہید بینظیر آباد میں پی ٹی آئی کا ایم پی اے، ایم این اے تو دور کی بات ایک کونسلر بھی کبھی منتخب نہ ہوسکا۔ جس امید وار نے الزام لگایا وہ کچھ عرصہ پہلے پی پی پی کے امیدواروں سے کچھ مفادات حاصل کر کے دستبردار ہونے کیلئے رابطہ کرتا رہا اور جب پی پی پی نے انکار کیا تو پہلے میدان سے راہِ فرار اختیار کی اور پھر جب دیکھا کہ آصفہ بھٹو زرداری بلا مقابلہ منتخب ہوگئی ہیں تو میڈیا میں اپنا قد بڑھانے کے لیے الزام تراشی شروع کردی۔آصفہ بھٹو زرداری کو پی ٹی آئی نے پہلی بار تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ نومبر 2020 میں اپنا سیاسی آغاز کرتے ہوئے، آصفہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں اور اپنے بھائی بلاول بھٹو زرداری کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مختلف ریلیوں کی قیادت کرتی نظر آئیں۔ اس سے پہلے جب عمران خان حکومت کا تختہ الٹا گیا تو بھی آصفہ ، بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ لانگ مارچ میں شانہ بشانہ رہیں اور ملتان میں ایک ڈرون کیمرہ لگنے کے باوجود وہ ہسپتال سے مرہم پٹی کروانے کے بعد ٹرک پر اپنے بھائی کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں بھٹو خاندان عوام کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ آج آصفہ بھٹو زرداری کی شکل میں پارلیمان سے شہید بینظیر بھٹو کی آواز گونج رہی ہے اور یہی آواز 804قیدی کیلئے خطرہ ہے۔ آنے والے دنوں میں آصفہ بھٹو زرداری کا پنجاب کی سیاست میں کردار اہم ہوگا اور اگر پی پی پی نے پنجاب کے کسی قابل لیڈر اور عوام میں رہنے والے کارکن کو آصفہ بھٹو زرداری کے سپرد کردیا تو یقینی طور پر پنجاب میں پی پی پی کارکنان اور قیادت کے درمیان حائل خلیج بھی ختم ہو جائے گی اور پی پی پی کا پنجاب میں سنہرا دور بھی جلد دکھائی دینے لگے گا ۔