ورثاء کے لیے وصیّت کرنے کا حکم

May 17, 2024

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:ہمارے والدین کی جائیداد میں کچھ مسائل چل رہے ہیں ،جس کے لیے ہمیں آپ سے فتویٰ چاہیے کہ اس کی تقسیم شرعی لحاظ سے ہوجائے ،جب کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ وصیت کے مطابق ہو اور جو بہنوں کی رقم مقرر کی گئی ہے، انہیں وہی دی جائے گی، اب آپ بتائیے کیا ٹھیک رہے گا؟

والد کی وصیت کے مطابق بیٹیوں کے لیے اس زمانے میں جو رقم مقرر کی گئی ہے، وہ ملنی چاہیے تھی، جو کہ کسی بھی صورت میں چاہے وہ رقم ہو یا گھر یا زیور کی صورت میں ادا نہیں کی گئی، بہنوں کو اب تک کچھ ادا نہیں کیا گیا ہے، اور جو والدہ کے زیورات تھے اس کا بھی کچھ نہیں معلوم کہ کس کو کیا ملا؟اب چوں کہ بٹوارا کیا جارہا ہے تو اس میں ایک پیپر تیار کیا گیا ہے بھائیوں کی طرف سے (جس میں جائیداد کا بٹوارہ وصیت کے مطابق کیا جارہا ہے، اور ہر فرد کو وصیت کے مطابق ہی اس کا حصہ دیا جائے گا) جس پر تمام بہن بھائیوں کے دستخط لیے گئے کہ وہ راضی ہیں، اس پر،جب کہ میں نے دستخط ابھی نہیں کیے اور میں اس تقسیم پر راضی بھی نہیں ہوں اور والد کی پہلی بیوی کی اولاد کا نہیں معلوم کہ ان کو لکھی گئی رقم ادا کی گئی یا نہیں؟ مہربانی کرکے آپ بتا دیجیے کہ یہ جائیداد ازروئے شریعت کس طرح تقسیم کی جائے؟

ذیل میں بھائیوں کی جانب سے تیار کردہ ایگریمنٹ کی شقوں کو مختصرًا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ جائیداد کی تقسیم حسبِ وصیت کی جائے گی اور ہر فرد کو وصیت کے مطابق حصہ دیاجائے گا۔

2۔ مکان کے کا غذات اور وکیل وغیرہ کی فیس میں جو رقم خرچ ہوگی وہ تمام افراد پر تقسیم ہوگی جو ان کے حصوں سے کاٹ کر ادا کی جائے گی۔

3۔ جو اپنے حصہ سے دست بردار ہورہا ہے، وہ ایک حلف نامہ لکھ کر الگ سے دے گا۔

4۔ جو شخص مکان کی فروخت کے لیے کوشش کرےگا اس کو اس کا علیحدہ سے حق الخدمت دیاجائے گا۔

5۔ مارکیٹ میں جو زیادہ قیمت لگائے گا مکان اس کو فروخت کردیا جائے گا۔

جواب:1۔ سائلہ کے مرحوم والد کا یہ کہنا کہ (میں بخوشی اپنی مذکورہ جائیداد اور رقم کو تقسیم کر رہا ہوں جس کو میرے بچوں، بچیوں اور اہلیہ نے بخوشی بلا کسی جبر و اکراہ کے قبول کیا) اس کے بعد جائیداد اور رقم کو زندگی میں نہ عملاً تقسیم کیا اورنہ ہی ہر ایک کو اس کا حصہ حوالےکیا، اس لیے والد کی گئی تقسیم کا اب کوئی اعتبار نہیں ہے۔

لہٰذا اگر تمام ورثاء عاقل، بالغ ہوں اور وہ والد صاحب کی تجویز کردہ تقسیم پر راضی ہوں تو باہمی رضامندی سے والد صاحب کی تحریر کے مطابق ترکہ کو تقسیم کیا جاسکتا ہے ،لیکن اگر ورثاء کو اس پر اعتراض ہو تو والد مرحوم کی جائیداد اور رقم کو تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم کرنا ضروری ہے۔

اگر والد کی منشاء یہ تھی کہ ان کی وفات کے بعد ان کی ذکر کردہ تجویز کے مطابق جائیداد تقسیم کی جائے تو ان کی خواہش ورثاء کے حق میں وصیت کا حکم رکھتی ہے۔ ورثاء کے لیے وصیت کی ضرورت ہی نہیں، کیوں کہ ہروارث کا حصہ شریعت میں طے شدہ ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص ورثاء کے لیے وصیت کرجائے اورورثاء بھی اس پر رضامندی کا اظہار کردیں پھر بھی اس کی وفات کے بعد ورثاء اس وصیت پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوتے اور وہ چاہیں تو وصیت کو مسترد کرکے میراث کے اصولوں کے مطابق تقسیم کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

2۔ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے دست برادر ہونا شرعًا معتبر نہیں۔ اگر وہ دست بردار ہوجائے تو شریعت کی نظر میں اس کی دست برداری کالعدم ٹھہرتی ہے اور اس کا حصہ میراث میں برقراررہتا ہے لہٰذا اگر کوئی وارث اپنا شرعی حصہ نہیں لینا چاہتا یا وہ کسی دوسرے وارث کے حق میں بلا عوض دست بردار ہونا چاہتا ہے تو اس کی درج ذیل چار شرعی صورتیں ہیں:

الف۔میراث کی شرعی تقسیم ہوجائے اورورثاء کو ان کے حصص الگ کرکے مل جائیں پھر کوئی وارث چاہے تو اپنا حصہ لینے کے بعد کسی دوسرے وارث کو عطیہ کردے۔

ب۔شرعی تقسیم کے بعد اپنے شرعی حصے کے عوض کچھ رقم وغیرہ لے لے اور اپنے حصہ سے دست بردار ہوجائے۔

ج۔اگر وارث کسی دوسرے وارث کے حق میں دست بردار ہونا چاہےتو اسے اپنا حصہ معمولی قیمت کے عوض فروخت کردے۔

د۔اپناحصہ کسی ایک وارث یا زیادہ ورثاء کو فروخت کردےاور قیمت معاف کردے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں درج بالا صورتوں میں سے کسی بھی صورت پر عمل کیا جاسکتا ہے، باقی محض زبانی کلامی یا حلف نامہ لکھ کر دینے سے دست برداری شرعًا معتبر نہیں ہوگی۔ (فقط واللہ اعلم)