لاپتہ بلوچ طلباء کا کیس: رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

May 21, 2024

—فائل فوٹو

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے لاپتہ افراد کی کمیٹی کی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کر دی۔

لاپتہ بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔

وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان جبکہ لاپتہ بلوچ طلباء کی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت میں پیش ہوئےْ۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس عدالت نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے کچھ ٹی او آرز تھے، پچھلے 10 سال میں بلوچ طلباء کے خلاف دہشت گردی کے کتنے کیسز درج کیے گئے؟ 10 سال میں کتنے لوگ گرفتار ہوئے، لاپتہ ہوئے یا انہیں ہراساں کیا گیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی شخص کو ہراساں نہیں کر سکتیں، معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اچھا، خفیہ ایجنسی کو اب تھانے میں بلائیں گے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت، جج، وکیل، صحافی، پارلیمنٹیرین ایجنسیوں کو قانون کے مطابق کام سے روکنے کی بات نہیں کرتے، صرف خلافِ قانون کام کرنے سے روکنے کی بات کرتے ہیں، الزام ہے کہ بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں، وہ کھاتے پیتے بھی ہوں گے، خرچ سرکاری خرانے پر آتا ہے؟ ایجنسیوں کے فنڈز کا کوئی سالانہ آڈٹ ہوتا ہے؟ ہم نے پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کو مؤثر بنانا ہے، یہی 3 ادارے ہیں جنہوں نے تفتیش کرنا ہوتی ہے، باقی ایجنسیاں ان کی معاونت کر سکتی ہیں، ایجنسیوں کے کام پر کسی کو اعتراض نہیں، اعتراض ماورائے قانون کام پر ہے، وزیرِ اعظم شہباز شریف کو عدالت میں طلب کیا، انہوں نے بھی یہی کہا، ہم سب نے قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے، اس ملک نے دہشت گردی میں 70 ہزار جانیں گنوائی جا چکی ہیں، قانونی دائرے میں جو اختیار ملتا ہے اس پر عمل درآمد کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی طور پر اس مسئلے کے حل تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ مطلب آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے؟ ہم نے باہر سے کسی کو نہیں بلانا کہ آ کر مسئلہ حل کرے، غلطیاں ہوتی ہیں غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے، یہ 21 ویں سماعت ہے، آپ کی محنت سے کئی اسٹوڈنٹس بازیاب ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے لاپتہ افراد کیسز میں بہت کام کیا، جو رہ گیا وہ بھی کریں گے، تھوڑا وقت دے دیں، لاپتہ افراد سے متعلق سیاسی حل بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جنگ میں بھی سفید جھنڈا لہرا کر سیز فائر کیا جاتا ہے، بات چیت کر کے حل نکالا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بھی یہی استدعا ہے کہ تھوڑا وقت دے دیا جائے۔

ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا، لاپتہ افراد پر کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں سے کوئی بھی لواحقین سے ملنے نہیں گیا، کمیشن بنا دیا گیا لیکن کوئی بھی پروگریس نہیں ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین کو کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کے مطابق جو معلومات عدالت میں دی گئیں وہ درست نہیں ہیں، اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی کاوشوں کو سراہنا ہو گا، اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں، جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز آتے رہیں گے یہ کورٹس کام کرتی رہیں گی، ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے آئندہ 2 اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا، عدالت ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی کی کمیٹی میں تبدیلی کرے، اس کمیٹی میں ڈی جیز لیول سے نیچے کے لوگ ڈالیں تاکہ کوآرڈی نیشن آسان ہو۔

عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آرڈر جاری کروں گا وہ آپ دیکھ لیں، اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ آپ جیسے لوگ کہاں پر ہیں جو مسائل کو حل کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہ بہت مشکل سوال ہے، اس معاملے کو اگر حل نہیں کیا تو مسائل بڑھیں گے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور لاپتہ فرد کا کیس ہے، اس میں بھی آپ آئیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس کیس میں ضرور آؤں گا۔

عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی۔