سیاسی استحکام و امن: لازم و ملزوم

May 26, 2024

قارئین کسی بھی ملک میں معاشی ترقی ،سیاسی استحکام اور امن و امان لازم و ملزوم ہوتے ہیں، کوئی ایک بھی عنصر اگر دستیاب نہ ہو تو ترقی ممکن نہیں۔ آج آئی ایم ایف نے جو مطالبہ کیا ہے، ہم روز اول سے یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہئے کہ ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد کی خاطر ایک میز پر آئیں، تاکہ ملک کو اس دلدل سے نکالا جا سکے۔ جو کچھ آزاد کشمیر میں ہوا، اسے دیکھتے ہوئے سمجھ جانا چاہئے کہ دشمنوں میں گھرے پاکستان کو ہر لمحہ اس بات کا خطرہ ہے کہ دشمن کسی بھی صورتحال میں اپنے ایجنٹ داخل کر کے حالات خراب کر سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ کسی صورت بھی غلط نہیں کہ سیاسی استحکام پیدا کیا جائے، ورنہ اصلاحات کا ایجنڈا متاثر ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب دگرگوں حالات کے سبب اپنے سرمایہ کار دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہوں تو باہر سے آکر کون پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ غیر مشروط طور پر مذاکرات کریں۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے، یہ انتہائی خوش آئند ہو گا کہ تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں اور سیاستدانوں کو ان کا کام کرنے دیا جائے سیاستدانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ باہم بات چیت سے ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنائیں، تاکہ آئی ایم ایف اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یقین ہو کہ یہاں سیاسی صورتحال میں کسی تبدیلی کے بعد پالیسیوں کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔ کوئی بھی ملک طویل مدتی حکمت عملی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور طویل مدتی حکمت عملی سیاسی استحکام اور پالیسیوں کو جاری رکھنے کی یقین دہانی کے بغیر ممکن نہیں۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں صدر آصف علی زرداری کی شہرت مرد مفاہمت کی ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے منصب کوملک کی بہتری کیلئے استعمال کرتے ہوئے، تمام سیاستدانو ں کو ایک میز پر لائیں۔ ماضی میں شہباز شریف اور عمران خان دونوں ہی الگ الگ وقت میں میثاق معیشت کی بات کرتے رہے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ اس میثاق کو ممکن بنایا جائے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش اور نواز لیگ کی جانب سے بات چیت پر آمادگی کے اعلانات خوش آئند ہیں بشرطیکہ کوئی سیاسی ذمہ دار انہیں ایک میز پر لانے میں کامیاب ہو جائے۔

دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چینی دوست پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، انکی سلامتی ہماری سلامتی ہے، انہیں فول پروف سیکورٹی دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں سے ملاقات کے موقع پر کیا۔ دوسری جانب بشام خودکش حملے میں ملوث 4سہولت کاروں سمیت 10دہشت گرد گرفتار کر لئے گئے، جن کا تعلق کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے ہے جب کہ خود کش حملہ آور افغانی بتایا جا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف سمیت دیگر دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے اور سی پیک اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جس میں خصوصی اقتصادی زونز کا مرحلہ وار افتتاح کیا جا رہا ہے اور معیشت کی بحالی کیلئے مختلف شعبوں میں منصوبہ کاری کیلئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جا رہی ہے، دہشت گرد حملے نئی حکومت کی مشکلات کو بڑھا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف جلد چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ خبر بھی اچھی ہے کہ پروجیکٹ پر کام معطل کرنے والے چینی ورکرز اور انجینئر ز نے اپنے فرائض دوبارہ سرانجام دینا شروع کر دئیے ہیں۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلانا اب ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کسی ایک صوبے تک محدود نہیں رہے۔ وفاقی دار الحکومت سے صوبائی دار الحکومت تک، اہم تنصیبات، غیر ملکی شہریوں، پولیس سے فوج کے جوانوں تک سب ہی نشانے پر ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حکمران ملک میں پنا ہ لینے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دہشت گرد موقع پر ستانہ انداز میں خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہے ہیں جس کے باعث ان کے خلا ف مربوط قدم اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قیام امن کیلئے کام کرنے والے ہمارے لوگ امن کی خاطر ہر وقت انتہائی خطرناک حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ محب وطن حلقوں نے سابقہ دور میں بار ہا اس طرف توجہ دلائی کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی فوج نے جو اسلحہ اور جنگی ساز وسامان وہاں چھوڑا، وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے پاس پہنچنے کا خطرہ ہے لہٰذا بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے مگر ان باتوں پر توجہ نہ دی گئی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونیوالے حملے سیکورٹی سسٹم کے اندر مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس دہشت گردی نے پالیسی سازوں کیلئے کئی ایسے پہلو آشکار کئے ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئر ز اور ورکرز پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کا منظر نامہ بہت زیادہ پیچیدہ اور متنوع ضرور ہے۔ افغانستان ایک دو شہروں کے علاوہ سارا خطہ قدیم قبائلی، جاگیر داری اور خانہ بدوش طرز معاشرت میں زندگی گزار رہا ہے۔ لہٰذا ان تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔