امریکہ کا گہرائی سے جائزہ لیجئے

May 29, 2024

حال ہی میں یہ خبریں بہت گردش کرتی رہیں کہ اعلیٰ سطح کے ایک سفارت کار کی پاکستان کے اعلیٰ سطح کے پالیسی ساز حکام سے ملاقات یا ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ ویسے تو ایسی ملاقاتیں معمول کی بات ہیں مگر اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس کو پبلک نہیں کیا گیا۔ اس پر گزارشات سے قبل ذرا ماضی کی سیر کر لی جائے۔ امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کی نومبر انیس سو ساٹھ میں ’’جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی پالیسی‘‘ میں کہا گیا تھا کہ ’’موجودہ استحکام کے پیش نظر پہلے کی طرح مسئلہ یہ نہیں رہا کہ ایک کے بعد دوسرے بحران زدہ انفرادی سیاست دانوں کے ساتھ حساب چکایا جائے۔ اب ہم پاکستان کے امکانات کا طویل المیعاد جائزہ لے سکتے ہیں۔ چونکہ اس وقت ہم ایک مستحکم سیاسی صورت حال کو اپنے لئے مفید سمجھتے ہیں، اس لئے ہم پاکستانی حکومت (ایوب حکومت) کو اس کی مجوزہ معاشی اور سماجی اصلاحات میں اپنی ہمدردانہ دلچسپی اور اپنے تعاون کا یقین دلانے پر خصوصی زور دیتے ہیں‘‘۔ حالانکہ امریکہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس فوجی آمریت کی حمایت کرنے کے پاکستان پر کتنے خطرناک اثرات مرتب ہونگے۔ نیشنل آرکائیوز، واشنگٹن کی ڈپلومیٹک برانچ میں پانچ دسمبر انیس سو اٹھاون کی امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ ’’پاکستان کی فوجی حکومت کو کٹھن مسائل درپیش ہیں‘‘ میں درج ہے کہ ’’اس صورت حال میں فوجی حکومت کا طویل دور جس کا ایوب خان بظاہر ارادہ رکھتے ہیں، صوبائی اور طبقاتی کشیدگیوں کو تیز کر سکتا ہے۔ اس سے دانشور، استاد، صحافی، قانون دان اور درمیانے طبقے کے دوسرے لوگ مایوس بھی ہوں گے۔ تاہم فوجی غلبے کے تحت سیاسی آزادیوں کے طویل عرصے تک خاتمے کے امکان سے مشرقی پاکستان میں کشیدگی اور بے چینی کے اس حد تک بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا جو شاید ملک کے دونوں حصوں کی وحدت کو تباہ کر دیگا‘‘ اور بد قسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ اب بھی اس امر کو نہایت محتاط انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ پاکستان سے کیا چاہ رہا ہے اور اس چاہت کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ افغان جنگ کا امریکہ کو مطلوبہ انجام نہیں مل سکا اور وہاں پر ابھی تک پاکستان کے حوالے سے ایک معاندانہ رویہ اور احساس پایا جاتا ہے اور بد قسمتی سے امریکہ میں متعین پاکستانی سفارت کار اس صورت حال کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پاکستان اور افغانستان کیلئے سابق امریکی نمائندہ خصوصی اور ایشیا فاؤنڈیشن کی صدر لورل ملر نے حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے اس امریکی صورت حال کی اچھی منظر کشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آپ کے پاس اس وقت امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں پر خدمات انجام دینے والے بہت سے ایسے لوگ ہیں، جو افغانستان میں بیس سالہ تجربے کی بنیاد پر پاکستان سے سخت نفرت رکھتے ہیں‘‘ یہ و ہی لورل ملر ہیں کہ جن کی شریک سربراہی میں انسٹیٹیوٹ آف پيس یونائیٹڈ اسٹیٹس نے پاکستان اور افغانستان کے معاملات پر اسٹڈی گروپ تشکیل دیا تھا اور اس کی رپورٹ ابھی 14مئی کو جاری کی گئی ہے، اس اسٹڈی گروپ میں لورل ملر کے ہمراہ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل ناکاٹا شریک سربراہ، پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر این پیٹرسن، افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر مائیکل میک کینلے اور دیگر مختلف دفاعی و پالیسی ساز اداروں کے افراد شامل تھے۔ اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو تجویز کیا گیا ہے کہ وہ افغان جنگ کے دوران پیش آئے واقعات کے اثر سے باہر نکلے کیونکہ وہاں پر اس حوالے سے اب بھی بہت تلخی اور صدماتی کیفیت موجود ہے اور اس کیفیت کی وجہ سے امریکہ پاکستان اور افغانستان کے معاملات کو اس طرح سے نہیں دیکھ پا رہا، جس طرح اس کو دیکھنا چاہئے اور اس وجہ سے ان دونوں ممالک میں شدت پسند تنظیمیں دوبارہ سے طاقت پکڑ رہی ہیں اور اس صورت حال میں افغان طالبان کی حکومت میں اسلامک اسٹیٹ خراسان (داعش خراسان) کو پناہ گاہیں حاصل ہیں حالانکہ وہ افغان طالبان کے شدید مخالف ہیں۔ اسی طرح سے پاکستان کی مخالف کالعدم ٹی ٹی پی بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں امریکی حکومت کو روایتی جنگ سے بچتے ہوئے فوجی کارروائی تک کے امکان پر غور کرنے کیلئے کہا گیا ہے اور یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ملکر امریکہ کو دوبارہ ان معاملات پر اقدامات کرنے چاہئیں اور پاکستانی فضائی حدود تک طویل المدتی امریکی رسائی کو محفوظ بنانے کا مشورہ دیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو واضح طور پر کہہ دینا چاہئے کہ اگر پاکستان سے بھارت کے خلاف کوئی عسکریت پسندی کی گئی تو اس کے سنگین منفی نتائج ہونگے۔ امریکہ میں پنپتے ان خیالات کو کسی وقت بھی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ (جاری ہے)