کھڑی نیم کے نیچے

March 14, 2014

تھرپارکر کا رومانس بڑا ہوتا تھا کہ کسی طرف بھی سڑک نہیں، ڈرائیور گاڑیاں اندازے سے چلائے جاتے تھے۔ اچانک ایک موڑ پر کچھ جھگیاں نظر آتی تھیں۔ وہاں رک کر عورتوں کا حال پوچھو تو ملاقات بہت سے گھونگھٹوں سے ہوجاتی تھی۔ جب میں ان سے پوچھتی یہاں تو ساری عورتیں۔ تم گھونگھٹ کس سے نکالے ہوئے ہو۔ وہ ایک دوسرے کی طرف اشارہ کر کے کہتیں یہ میری بڑی نند ہے، یہ میری جٹھانی ہے ، یہ میری ساس ہے’’کہ رتبے میں بڑی ہر عورت سے گھونگھٹ نکالنا رسم و رواج کا حصہ تھا۔ اس گائؤں کے مرد بھی وہیں ہوتے تھے کہ جانوروں، بیلوں، بھیڑ اور بکریوں کے لئے چارہ ، وہ خود تلاش کرکے لاتے تھے۔ عورتیں دن میں رلیاں بناتی رہتی تھیں۔ دوپہر اور شام کو آلو یا ٹماٹر کا مصالحہ بناکر جو اور جوار کی روٹی کے ساتھ سب مل کر کھا لیا کرتے تھے۔ پھر زمانہ بدلا کہ تھرپارکر میں سڑکوں کا جال بچھ گیا۔ کچھ قدامت پسند لوگ کہتے تھے۔ ہم سڑکوں کے بغیر اچھے تھے ۔ ان سڑکوں کے بننے سے یہاں ڈاکے پڑنے لگے ہیں اور خوش فکر لوگ کہتے تھے کہ سڑکوں کا جال بچھنے سے لوگ کیکڑے پر آسانی سے صبح اپنے کام پر آجاتے ہیں اور شام کو یہی کیکڑا اپنے دیہاتوں میں واپس لے جاتا ہے۔ کیکڑا کسے کہتے ہیں۔ ٹریکٹر ٹرالی کے انجن کے پیچھے لمبا تختہ لگا ہوتا ہے جس پر جتنے لوگ چڑھ سکیں، چڑھ جاتے ہیں۔ ہم لوگوں نے جب مٹھی میں ہنرمند عورتوں کی ورکشاپ کی تب بھی ہم نے کیکڑا کرائے پر لیا تھا۔ جس میں25،30عورتیں بھر کر آگئی تھیں۔ ہر عورت کوکہا گیا تھا کہ اپنے اپنے ہنر کے نمونے ، چاہے پرانے ہوں کہ نئے ساتھ لائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان کے علاقے میں رنگوں کا استعمال کیسا ہوتا ہے۔ ہر عورت نے خوبصورت نکھرے رنگوں میں ایسے ایسے بیل بوٹے بنائے تھے، جس کا وہ تصور کرسکتی تھی کہ ان کے پورے تھرپارکر میں کیکٹس اور اس کے قبیل کے پودے ہی تھے یا پھر کانٹے دار جھاڑیاں تھیں۔ جب کبھی اور وہ بھی مون سون کے زمانے میں وہاں بارش ہوتی تو اگلے دن ساری عورتیں اور مرد زمین میں جوار، باجرہ اگانے کے لئے گھروں سے نکل پڑتے خالی جگہوں پر کھمبیاں بھی نکل آتیں ۔ وہاں کی عورتوں کو معلوم تھا کہ کونسی کھمبی زہریلی اور کونسی کھانے والی ہوتی ہے وہ بھی توڑ توڑ کر جمع کرتیں مرد لوگ چارے کی تلاش میں جانوروں کو لیکر دوردراز علاقوں کی سمت جاتے کہ کہیں تو گھاس ہوگی کہ جانوروں کا پیٹ بھرسکیں ۔ یہ فصل دوماہ میں تیار ہوجاتی جوان لوگوں کے لئے سال بھر کے لئے کافی ہوتی ۔ مٹی سے لیپی پوتی چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیاں اس زمانے میں کرائے پر بھی غیر ملکیوں کودی جاتی تھیں۔ جس زمانے میں ہمارے یہاں بہت سیاح آتے تھے کہ وہ لوگ مٹھی سے لیکر چھاچھرو تک، ان مٹی کے گھروں میں رہنے والوں کی سی زندگی کا ذائقہ چکھتے تھے ۔ ان کے گھر میں جوار کی روٹی اور بکری کے دودھ سے ناشتہ کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے ۔ یہ ذائقہ میں نے بھی چکھا ہے پر میرے لئے اچار بھی تھا اور کریلے قسم کی پھلیاں تھیں جن کا سالن بنایا ہوا تھا۔
مون سون کی بارشوں کے دوران، گاڑیوں کے مشاق ڈرائیور بھی گاڑی روک لیتے تھے کہ راستے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ مون سون تھری لوگوں کے لئے سال بھر کا ذائقہ لیکر آتا تھا جب کبھی سوکھا پڑا تو لوگوں کے چہرے اتر گئے۔ مور مرنے لگے ۔ بھیڑ بکریاں دم توڑ گئیں اور بچوں کو سوکھے کی بیماری لگ گئی مگر ایسا تو ان دنوں میں ہوتا تھا جب این جی اوز نہیں تھیں۔ تھرپارکر رورل سپورٹ پروگرام نہیں تھا، جب سڑکیں نہیں تھیں۔ جب لوگ عام طور پر نقل مکانی کرجایا کرتے تھے۔ اب تو سڑکیں ہیں کوئلے کے ذخیروں پر کام ہورہا ہے ۔ ان سڑکوں پر اب تو بسیں بھی چلنے لگی ہیں ۔ اب یہ المیہ کیوں نازل ہورہا ہے ۔ سبب یہ کہ پہلے تو یہاں مقامی کونسلیں ہی نہیں ہیں کہ وہ علاقے کے لئے کچھ کام کرتی تھیں، اب وہ سندھ کی سیاسی حکمت عملیوں کی نذر ہوگیا ہے دوسرے اس علاقے میں کوئی باقاعدہ منصوبہ ہے ہی نہیں جب خبر تھی کہ اس دفعہ مون سون نے تھر کارخ نہیں کیا۔ گندم بھیجی جاچکی تھی ۔ وہ بھی مٹھی اور عمرکوٹ تک محدود رہی ۔ چھوٹے دیہاتوں کابھلا ہم نے کبھی پنجاب میں نہیں سوچا کجا تھر کہ جہاں آج تک ان جھونپڑوں والے دیہاتوں کی گنتی ہی نہیں ہوئی۔ جس ملک میں مردم شماری ہی نہیں ہوتی وہاں یہ علم کیسے ہو کہ آبادی کتنی اور کہاں کہاں بڑھی ہے اب جبکہ ریاض ملک نے امداد کا اعلان کیا تو سرکار کو بھی ہوش آیا ہے۔
یہ مرحلہ ہر اس سال پیش آتا ہے جب تھر میں بارش نہ ہو۔ یہ واقعہ کوئی یہ پہلی دفعہ نہیں پیش آیا ۔ ہر دو یا تین سال سوکھا پڑتا ہے ایسے حالات کے لئے پہلے سے انتظام کون کرے۔ سٹی آفیسر کرے کہ جو لوگ وہاں سے ووٹ لیکر ممبر بنتے ہیں یہ کام ان کے کرنے کے ہیں۔ اب جبکہ آسمان پھٹ پڑا اور ہزاروں لوگ بنگال کے قحط کی طرح نظر آرہے ہیں۔ وہ جماعتیں کہاں ہیں جوان لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے چھاچھرو پہنچی تھیں وہ لوگ کہاں ہیں جو گھر گھر ان کی رلیاں اور کشیدہ کاری لیکر زینب مارکیٹ لے جا کر فروخت کرتے تھے۔ وہ لوگ کہاں ہیں جو انہیں مردہ نہلانے کا اسلامی طریقہ سکھا رہے تھے۔ ہمارے تھری لوگوں کو تو اپنی برہمی کا اظہار کرنا بھی نہیں آتا۔ ان کے بچوں کے چہروں کو دیکھ کر، ہمیں اور آپ کو تو وہ کانٹے بھی یاد آرہے ہیں جو جھاڑیوں کے ساتھ لٹکے لٹکے مردہ ہوگئے ہیں۔ وہ زمین کہاں گئی جہاں بقول ندیم صاحب، ستارے بوئے جاتے تھے اور آفتاب کاٹے جاتے تھے ۔ زمیں پہ خلدِ بریں کاجواب تو ہمیں اس تھرپارکر کی زمین پر دینا تھا ۔ یہاں توزندگی خزاں کی پتیاں بنکر جھڑرہی ہے اور وزٹ پر آنے والے مزے مزے کے کھانے کھا رہے ہیں جبکہ تھر کے لوگوں کو میٹھا پانی بھی دستیاب نہیں ہے بجلی بھی نہیں ہے تھرپارکر مٹھی سے شروع ہوتا ہے ۔ سب لوگ بس مٹھی آکر ٹھہر جاتے ہیں۔ اسلام پورہ اور چھاچھرو سے بھی آگے راجستھان کی سرحد تک تھر پارکر پھیلا ہوا ہے کوئی نہیں تو ریاض ملک ہی فلاحی کام تھرپارکر آخری حصوں کی مصیبت کو ختم کرنے کے لئے شروع کریں۔