مفقود الخبر کی زوجہ کب تک اس کا انتظار کرے ؟

May 31, 2024

سوال: ایک شخص کئی سال سے لاپتا ہے، اُس کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کچھ اتا پتا نہیں ہے، اس کی منگیتر یا منکوحہ کے بارے میں شرعی رہنمائی درکار ہے: آیا وہ ہمیشہ شوہر کے انتظار میں بیٹھی رہے گی، حتّٰی کہ اس کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی یقینی خبر آجائے یا اس کے لیے اس ابتلا سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے، انسان کے بہکنے یا گناہ میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہے، اس کے کئی بشری تقاضے بھی ہوتے ہیں، معاشرے کا دباؤ اور قبائلی روایات بھی اپنی جگہ ہوتی ہیں، پس وہ کیا کرے ؟ ازراہِ کرم شرعی رہنمائی کیجیے ۔ (عبداللہ ، کراچی)

جواب: ایسے لاپتا افرادجن کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت نہ ملے، اُنھیں شریعت کی اصطلاح میں’’مفقودالخبر ‘‘کہا جاتا ہے، آج کل کی اصطلاح میں انھیں Missing Persons کہا جاتا ہے۔ شریعت میں ان کی میراث، وارث بننے اور ایسے شخص کی بیوی کے نکاحِ ثانی کرنے کے بارے میں علیحدہ جامع احکام موجود ہیں۔

منگنی وعدۂ نکاح ہے ، نکاح نہیں ، لہٰذا ایسی خاتون کے ولی کی طرف سے منگنی توڑنے کا اعلان ہی کافی ہے،وہ عورت اپنی آزادانہ مرضی یا اپنے ولی کی رضامندی سے کسی بھی شخص سے نکاح کرسکتی ہے ، البتہ منکوحہ عورت کی خلاصی کے لیے باقاعدہ شرعی وقانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔

اَحناف کے نزدیک مفقود کی زندگی کے ایک سو بیس برس مکمل ہونے پر اُسے مردہ قرار دیا جاتا ہے، علامہ ابو الحسن مرغینانی لکھتے ہیں :ترجمہ:’’امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں : جب مفقود الخبر(لاپتا )شخص کی زندگی کے ایک سو بیس سال پورے ہوجائیں گے، تو اسے مردہ قرار دیا جائے گا اور ظاہر مذہب یہ ہے: جب اس کے تمام ہم عصرلوگ فوت ہوجائیں گے ،تو اس کو مردہ قرار دیا جائے گا۔

امام ابو یوسف ؒسے نوے سال کی روایت ہے: بعض مشایخِ حنفیہ نے بھی 90سال مقرر کیے ہیں، زیادہ قرینِ قیاس بات یہ ہے کہ وقت مقرر نہ کیا جائے۔ اورزیادہ مناسب یہ ہے کہ 90سال مدت مقرر کی جائے اور جب اسے مردہ قرار دے دیا جائے گا،تو اس کی بیوی عدتِ وفات گزارے گی اور اس کا ترکہ وارثوں میں تقسیم کردیا جائے گا،(ہدایہ، ص:598)‘‘۔

امام مالک ؒ کے نزدیک قاضی کے پاس مقدمہ دائر کرنے کے بعد چار سال انتظار کرے ،پھر قاضی مفقودالخبر کی موت کا حکم لگا کرتفریق کردے اوروہ عورت عدت گزار کر عقدِ ثانی کرلے ،امام مالکؒ روایت کرتے ہیں :ترجمہ:’’ حضرت سعید بن مسیِّبؓ بیان کرتے ہیں:حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا: جس عورت کا شوہرلاپتا ہوجائے، پتانہ چلے کہ کہاں گیا، وہ چار سال انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن عدتِ وفات گزارے ،اس کے بعد وہ نکاح(ثانی) کے لیے حلال ہوجائے گی،(مؤطا امام مالک:2134)‘‘۔

ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اصحابِ مالکیہ اور حنابلہ کہتے ہیں: مفقود الخبرکی بیوی چار سال انتظار کرے ، پھر وفات کی عدت چار ماہ دس دن گزارے ،(اَلفِقْہُ الاِسلاَمِی وَأَدِلّتہٗ ،جلد7،ص:644)‘‘۔

امام شافعی کے نزدیک مفقود کی زوجہ اپنے شوہر کی موت کا یقین ہونے تک انتظار کرے یا حاکم کے پاس مقدمہ پیش کرنے کے بعد چار سال انتظارکرے ، نکاح فسخ کرائے اور عدتِ وفات گزار کر عقدِ ثانی کرلے ، چار برس کی مہلت کے بعد نکاح کی اجازت دینا جمہور کا مسلک ہے ، یہی مسلک امام احمد بن حنبل ؒ کا ہے ، اس مسئلے میں صرف امام اعظم ابو حنیفہؒ کا اختلاف ہے ۔

ضرورت اوردینی مصلحت وحکمت کی بنا پر حنفی ہونے کے باوجود اَئمۂ ثلاثہ میں سے کسی کے مذہب پر فتویٰ دیاجائے ،تو یہ جائز ہے ، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ علامہ قُہستانی نے کہا: اگر ضرورت کی بناپر امام مالک کے قول پر فتویٰ دیاجائے ،تو جائز ہے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد4،ص:295)‘‘۔

6ربیع الآخر1318ھ کو مفتی المالکیہ شیخ الجامعۃ الازہر نے گیارہ معاشرتی مسائل میں امام مالک کے مذہب کی نصوص پر مشتمل ایک فتویٰ جاری کیا، جس کی جامع ازہر کے تمام علماء نے تصدیق کی ہے، ان میں حنفی علماء بھی شامل ہیں، اس فتوے کو مصرکی وزارتِ اوقاف نے فتاویٰ اسلامیہ میں شائع کیا ہے، اس فتوے سے پہلے علمائے ازہر نے فقہ حنفی سے اس پر تصریحات پیش کی ہیں کہ ضرورت کے وقت دوسرے مذہب پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ حاشیۃ الفتّال میں ہے : فقیہ ابواللیث سمر قندی نے’’ تاسیس النظائر ‘‘میں لکھا: جب کسی مسئلے میں امام اعظم کاقول نہ ملے ،توامام مالک کے مذہب کی طرف رجوع کیا جائے، کیونکہ وہ باقی مذاہب کی بہ نسبت امام ا عظم کے زیادہ قریب ہیں، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد3،ص:411)‘‘۔ تاسیس النظائر سے مراد ہے: جب کسی مسئلے میں اپنے مذہب سے کوئی صریح نصّ نہ ملے یا ایسے اقوال ہوں ،جو ناقابل تصور عُسر اور حرج کا باعث ہوں ،تو پھر دوسرے مذہب میں اُس جیسی صورت مسئلہ پر قیاس کرکے مسئلہ اَخذ کیاجاسکتا ہے ،آج کل عدالتی اصطلاح میں انھیں عدالتی نظائر (Precedents)سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ ’’ فتاویٰ امجدیہ‘‘ کے حاشیے میں جو یا تو ان کا اپنا املا کرایا ہوا ہے یااُن کے تلمیذ ِرشید اورنائب خصوصی مفتی اعظم ہند علامہ محمد شریف الحق امجدیؒ کا تحریر کردہ ہے:’’لیکن اگر شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی وجہ سے عورت دوسری شادی پر اتنی مجبور ہو جائے کہ دوسرا کوئی چارۂ کار نہ ہو ،حالتِ مُلجئہ پیدا ہوجائے ،تو ہمارے علماء نے امام مالک ؓ کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے، خصوصاً اس پُر فتن دور میں ہمارے علماء کا تقریباً اس پر اتفاق ہے کہ اس خصوصی مسئلے میں امام مالکؓ کے مذہب پر فتویٰ دیا جائے، مگر اس خصوص میں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں: اوّل یہ کہ مذہبِ امام مالکؓ یہ نہیں کہ شوہر کے غائب ہونے کے دن سے چار سال گزار کر شوہر کی وفات کا حکم دیا جائے، بلکہ یومِ قضاء سے، یعنی جس دن قاضی لاپتا شوہرکی موت کا حکم لگائے چار سال انتظار کرنا ضروری ہے، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ، جلد5،ص:500پر کتاب مُدَوَّنہ کے حوالے سے مذکور ہے، دوسرے یہ کہ اس کے لیے قضائے قاضی شرط ہے ،درمختار میں ہے: ترجمہ: شوہر کی موت کا حکم قضائے قاضی سے دیا جائے،کیونکہ یہ ایک ایسامعاملہ ہے جو دوسری جہت (زندگی)کا بھی احتمال رکھتاہے، تو جب تک اس کے ساتھ قاضی کا فیصلہ نہیں ملے گا، یہ حجت نہیں ہوگا،(جلد: 3،ص: 331،کتاب المفقود ، نعمانیہ)‘‘۔

اس زمانے میں جب کہ یہاں حاکم ِ اسلام نہیں ،علمائے بَلَد، جو مرجع فتویٰ ہوں، اس خصوص میں قاضی کے قائم مقام ہیں،واللہ تعالیٰ اعلم(فتاویٰ امجدیہ دوم، ص:91)‘‘۔یہ ہندوستان کے تناظر میں ہے۔ (جاری ہے)