تھراور چولستان میں فرق !...محرم راز…شاہد جتوئی

March 14, 2014

تھر کے ریگزاروں میں گرمی ، سردی ، بہار اور خزاں کی طرح ہر سال قضا کا ایک موسم بھی آتا ہے ، جب وہاں موت کا رقص ہوتا ہے ۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ باہر کی دنیا کو کبھی اس کی خبر ہوتی ہے اور کبھی کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اس موسم میں تھر کے ’’ مارو ‘‘ اور ’’ مارویاں ‘‘ صحرا کی ریت کا کفن اوڑھ کر خاموشی سے ابدی نیند سو جاتے ہیں اور وہ کسی سے شکوہ بھی نہیں کر تے ۔ اس مرتبہ میڈیا نے موت کے اس رقص کو ’’ بڑی ‘‘ خبر بنا کر پیش کیا تو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی نہیں رہا گیا اور وہ اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر ضلع تھر پارکر کے ہیڈ کوارٹر مٹھی پہنچ گئے ۔ یہاں آ کر ان کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ پنجاب کے صحرائی علاقے ’’ چولستان ‘‘ میں سندھ کے تھر جیسی صورت حال کیوں پیدا نہیں ہوتی ؟
اگر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس سوال سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ، اس لیے تھر میں اس طرح کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی وجہ سے چولستان میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تو پھر حکمرانی کے فرق کو مزید وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہئے ۔ سرحد کے اس پار بھارت کی حدود میں واقع راجستھان اور دیگر صحرائی علاقوں میں ہونے والی ترقی کو دیکھا جائے تو اصل فرق نظر آتا ہے ۔ راجستھان بھی اسی صحرا کا حصہ ہے ، جس میں تھر اور چولستان بھی شامل ہیں ۔ یہ عظیم صحرائے ہند کہلاتا ہے۔ اس علاقے کا ذکر رامائن میں بھی ہے اور اس زمانے میں اسے ’’ لونا ساگرا ‘‘ ( Salt Ocean ) کہا جاتا تھا ۔ جین مت کے مطابق یہ علاقہ ’’ مدھیا لوکا ‘‘ یعنی کائنات کا وسط ( مرکز ) تھا ۔ پاکستان کے حصے میں آنے والا مدھیا لوکا اب کائنات کا آخری حصہ لگتا ہے ۔ تھر کی ریت کے ایک ایک ٹیلے میں اگر کئی انسان دفن ہیں تو چولستان ( جسے ’’ روہی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ) کے ٹیلے بھی اپنے اندر سیکڑوں روہیلوں کو پناہ دیئے ہوئے ہیں ۔ تھر اور روہی کا مقدر ایک ہے ۔ مارووں اور روہیلوں کے نصیب بھی ایک جیسے ہیں ۔ وطن سے محبت کے ایک لازوال کردار ’’ ماروی ‘‘ ( مارئی ) کا قصہ بیان کرتے ہوئے شاہ لطیفؒ تھر کی حالت کا اس طرح نقشہ کھینچتے ہیں ’’ کنویں ہیں اب نہ چرخی کی صدا ہے ۔۔ سماں اس گاؤں کا سنسان سا ہے ۔۔ نظر آتے ہیں ان کے حوض خالی ۔۔ نہ گلا ہے نہ کوئی جھونپڑا ہے ۔۔ کہاں ہیں اب وہ خرقہ پوش مارو ۔۔ خدا جانے وہاں کیا ہو گیا ہے ۔۔ سراپا محو حیرت ہو گئی ہوں ۔۔ خیال ان کا میرے دل میں بسا ہے ۔ ( ترجمہ شیخ ایاز ) ‘‘ اسی طرح خواجہ فرید چولستان ( روہی ) کی ویرانی اور تباہی کا نوحہ سناتے ہیں ۔ ’’ ڈکھڑے ڈکھڑے آیم پکھڑے ۔۔ تاڈے ڈٹھڑے ٹوبھے سکڑے ۔۔ دلڑی دردیں ماری بھلو ۔۔۔ ککڑے کنڈڑے راہ جبل دے ۔۔ اوکھے پینڈے مارو تھل دے ۔۔ سولیں ساڑی ہاری بھلو ‘‘ ترجمہ : ’’ میری قسمت میں دکھ اور الم ہیں ۔ ( موسم کیا بدلا ) میرے جھونپڑے زمین بوس ہوگئے ہیں اور میرے تالاب خشک ہو گئے ہیں ۔ دردو الم نے میرے دل میں گھر کرلیا ہے ۔ میری راہوں میں کنکر اور کانٹے ہیں ۔ تھل ( ریگستان ) کا سفر اور زندگی بڑی پر آشوب ہے ۔ اس قیامت خیز زندگی سے میں ہار گئی ہوں ۔ ‘‘ لطیف اور فریدفہمی سے ہی تھر کے مارووں اور چولستان کے روہیلوں کے سانجھے دکھ کو سمجھا جا سکتاہے ۔ جس طرح سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کہتے ہیں کہ تھر کی صورت حال پر وزیر اعلیٰ کو بیورو کریسی نے بے خبر رکھا ، شاید اسی طرح چولستان کی صورت حال پر بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو بے خبر رکھا گیا ۔ چولستان کے حالات تھر سے بھی زیادہ خراب ہیں ۔ چولستان میں جہاں جہاں تک پانی پہنچا ہے ، وہاں وہاں سے روہیلے بے دخل ہو گئے ہیں ۔ چولستان کی لاکھوں ایکڑ اراضی غیر مقامی لوگوں کو الاٹ کر دی گئی ہے ۔ وزیر اعظم کو شاید یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اسی سال خشک سالی کے باعث 80 فیصد آبادی چولستان سے نقل مکانی کر چکی ہے ۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں جانورمر چکے ہیں اور ہزاروں انسان متاثر ہوئے ہیں ۔ ایک زمانہ ہوتا تھا ، جب خشک سالی میں جانور پانی کی خوشبو پر سفر کرتے ہوئے سرحد پار کر کے ہندوستان کے علاقے میں چلے جاتے تھے اور پانی پی کر واپس آ جاتے تھے لیکن اب سرحد پر خار دار باڑ لگنے کی وجہ سے جانور دوسری طرف نہیں جا سکتے اور وہیں مر جاتے ہیں ۔ وزیر اعظم کو شاید یہ بھی نہیں بتایا گیا ہو گا کہ چولستان میں ’’ ٹوبھوں ‘‘ کی بھل صفائی کے لیے صوبائی حکومت نے گذشتہ 6 سال سے گرانٹ نہیں دی اور ٹوبھوں کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 90فیصد ختم ہو گئی ہے ۔ وزیر اعظم کو شاید یہ بھی نہیں بتایا گیا ہو گا کہ چولستان کے علاقے کے لیے پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی تھی لیکن اس پائپ لائن میں پانی چھوڑنے کے لیے پمپنگ اسٹیشنوں کا ڈیزل بھی نہیں ہے ۔ جناب وزیر اعظم کو شاید یہ بھی نہیں بتایا گیا ہو گا کہ چولستان کے 400کمیونٹی اسکول بند کردیئے گئے ہیں۔ چولستان کے حالات خراب نہ ہوتے تو پنجاب اسمبلی کے سابق رکن خلیل لابر اور ان کے دوست چولستان میں راستہ بھولنے اور پیاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مر جاتے۔ مدھیا لوکا کے پاکستانی حصے چولستان اور تھر کے لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ صحرا پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک قدرتی سرحد کو تشکیل دیتا ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ چولستان اور تھر کی ترقی میں دفاعی مسائل سامنے آ جاتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے حالانکہ اسی علاقے نے ماروی کو جنم دیا ۔ یہ تاریخ انسانی کا وہ کردار ہے ، جس نے دنیا کے ہر خطے کی عورت کی لاج رکھ لی ۔ عورتوں کے بارے میں پوری دنیا میں یہ تاثر ہے کہ وہ مرد کے مقابلے میں دولت ، طاقت اور مرتبے سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور اس کا دھرتی سے رشتہ نسبتاً کمزور ہوتا ہے لیکن ماروی نے عمر بادشاہ کے محلوں کو ٹھکرا کر پیاس اور افلاس کے صحرا تھر سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ۔ اس طرح وہ حب الوطنی کی لازوال علامت بن گئی ۔ اس علاقے میں سارنگا سدھونت اور مومل رانا کی عظیم رومانوی داستانوں نے جنم لیا ۔ اس علاقے کو اس لیے ترقی نہیں دی گئی کہ یہاں کے لوگوں کی حب الوطنی پر شک کیا گیا ۔ اب چولستان میں سابق فوجیوں اور بیورو کریٹس کو زمینیں دی جا رہی ہیں جبکہ ممتاز سیاست دان عبداللہ حسین ہارون نے انکشاف کیا ہے کہ تھر کے سرحدی علاقوں میں جنگجوؤں اور انتہا پسند گروپوں کے لیے زمینیں خریدی جا رہی ہیں تاکہ وہاں انہیں آباد کیا جا سکے اور پاکستان کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ خشک سالی اور قحط صدیوں کی کوشش کے باوجود تھریوں اور روہیلوں کو ختم نہیں کر سکے لیکن اس صحرا میں دفاعی حکمت عملی اور حب الوطنی کے فلسفے کی بنیاد پر جو ترقی ہونے والی ہے ،اس میں تھریوں اور روہیلوں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ فرق صرف میعاد کا ہو گا کہ پہلے تھری بے دخل ہوتے ہیں یا روہیلے ۔