وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اقتصادی سروے 24-2023 جاری کردیا

June 11, 2024


وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب مالی سال 24-2023 کا اقتصادی سروے جاری کردیا اور کہا کہمہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد تک آ گئی۔ جلد سنگل ڈیجٹ پر آجائے گی۔ پالیسی ریٹ کو بھی بتدریج نیچے آنا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے 9 ماہ کے اسٹینڈبائی پروگرام میں مالیاتی نظم نسق کو تسلیم کیا۔ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے سوا کوئی پلان بی نہیں۔

اقتصادی سروے پیش کرنے کی تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ جس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ بریفنگ دی۔

بریفنگ کے آغاز میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ جب مالی سال 24-2023 شروع ہوا تو اس وقت میں پرائیویٹ سیکٹر میں تھا۔ میں نے کہا کہ ہمیں آئی ایف ایم کے پاس جانا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس پلان بی نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کو ترجیح دی۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ اگر ہم 9 ماہ کا معاہدہ نہ کرتے تو اس وقت ٹارگٹ طے نہیں کر رہے ہوتے۔

انکا کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح 48 فیصد تک گئی، مہنگائی کی شرح اب نیچے آئی ہے۔مہنگائی کی شرح 11 فیصد پر آئی ہے،مہنگائی کی شرح جلد سنگل ڈیجٹ پر آجائے گی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال جی ڈی پی منفی 2 فیصد تھی، رواں مالی سال کا آغاز وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ہوا۔جی ڈی پی گروتھ 2.38 فیصد رہی۔ جی ڈی پی کی گرؤتھ میں مشکلات آئیں اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں۔

محمد اورنگزیب نے بتایا کہ جی ڈی پی گروتھ میں بڑی صنعتوں کی گروتھ اچھی نہ رہی، زراعت نے اچھا کردار ادا کیا ہے۔ رواں مالی سال لائیواسٹاک بھی بہتر رہی۔

انکا کہنا تھا کہ مالی سال 23-2022 شروع ہوا تو روپے کی قدر میں 29 فیصد گراوٹ ہوئی، اسی دوران زرمبادلہ ذخائر بھی کم ہونا شروع ہوئے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ڈالر 350 کا ہوجائے گا، رواں سال روپے کی قدر میں استحکام رہا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ کرنسی میں استحکام آیا، نگران حکومت نے ہنڈی اور اسمگلنگ کو روکا۔ کرنسی میں بہتری آئی، اسٹیٹ بینک نے بھی اقدامات کیے۔

انکا کہنا تھا کہ رواں مالی سال ریونیو وصولی میں 30 فیصد گروتھ آئی۔جو ٹیکس وصولی ہوئی وہ بھی بےمثال ہے، صوبوں نے بھی ڈیلیور کیا، ان کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے، صرف 2 ہفتے کی برآمدات کا زرمبادلہ رہ گیا تھا۔ اس سال کے تین مہینے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا رواں مالی سال تخمینہ 6 ارب ڈالر تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا اب نئے تخمینے میں 200 ملین ڈالر کا تخمینہ ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ نگراں دور میں اسمگلنگ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر قابو پایا گیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سٹے بازی کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ کوشش ہے سٹہ بازی دوبارہ اس ملک میں نہ ہو۔

انکا کہنا تھا کہ بلند شرح سود اور مہنگی توانائی کے سبب لارج اسکیل مینوفیکچرنگ متاثر ہوئی۔ مہنگائی میں کمی کے باعث شرح سود میں کمی کی گئی۔جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مفید بات چیت چل رہی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 9 ماہ کا پروگرام بہتر طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ یہ پاکستان کا پروگرام ہے جس میں آئی ایم ایف کی مدد ہے۔آئی ایم ایف نے9 ماہ کے اسٹینڈبائی پروگرام میں مالیاتی نظم نسق کو تسلیم کیا۔

انکا کہنا تھا کہ سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 13.1 فیصد رہی۔ گزشتہ سال ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے، صرف 2 ہفتے کی برآمدات کا زرمبادلہ رہ گیا تھا۔ اگلے مالی سال میں زرمبادلہ میں مزید بہتری آئے گی۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ کھانے پینے کی اشیا سستی ہوئیں، پالیسی ریٹ بتدریج نیچے آرہا ہے، اسے نیچے آنا چاہیے۔ منہگائی میں کمی کی وجہ سے ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کم کیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر بات ہوسکتی ہے کہ شرح سود میں کتنی کمی ہونی چاہیے تھی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہے، چاہے بجلی کا معاملہ ہو یا ٹیکسوں کا، پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانے کے اصول پر آگے بڑھیں گے۔ کوئی مقدس گائے نہیں، ہر ایک کو اپنا حصہ دینا ہے۔

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملک میں بجلی چوری کا تخمینہ 500 ارب روپے ہے۔ بجلی کمپنیاں سرکاری شعبے میں نہیں چل سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جارہے ہیں، انسانی مداخلت کم کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا ستون ہے۔ زراعت اور آئی ٹی کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں، سب کچھ ہمارے کنٹرول میں ہے۔ زرعی شعبے میں نصف حصہ ڈیری پروڈکشن اور لائیواسٹاک کا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ چاول کی بمپر فصل سے ہم نے زرمبادلہ کمایا ہے۔ زراعت میں مڈل مین کے کردار میں کمی لانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی عمل دخل جس شعبے سے ختم ہو وہ اچھا ہے۔ پاسکو کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں رکھیں گے۔

انکا کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح کنٹرول میں مالی اور مانیٹری پالیسی کا تسلسل ضروری ہے۔ کتنی ٹیکس مراعات ختم ہو رہی ہیں، اس بارے میں ابھی نہیں بتاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جس طرح 24-2023 میں پالیسیز چلائی ہیں ان کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اقتصادی پولیسی اور مانیٹری پالیسی برقرار رہے گی۔ قرضوں کی ادائیگی بھی اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی۔ قرضوں کی ادائیگی کوئی بڑا مسلہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال کے دوران کمرشل قرض لیا جائے گا، امریکا جارہا ہوں۔ ریٹنگ ایجنسیوں سے بات کروں گا۔

انکا کہنا تھا کہ پانڈا بانڈ اسی سال جاری کیے جاسکتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ فنڈز پروگرام سپورٹ کے ساتھ بیرونی قرضوں کی ادائیگی جاری رہے گی۔ ہم آئندہ مالی سال بھی قرض رول اوور کروائیں گے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمارے ملک میں امپورٹڈ مہنگائی کا بہت بڑا اثر ہے۔

انکا کہنا تھا کہ این ای سی نے گزشتہ روز کچھ فیصلے واپس لیے ہیں، نگران حکومت میں کچھ اقدامات لیے تھے جن کو واپس لیا گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس وصولی کر کے دکھانی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے نجکاری سے متعلق نتیجہ جولائی اگست تک دیکھ لیں گے، ہم صرف اسلام آباد ایئرپورٹ کی نجکاری تک نہیں رکیں گے۔ سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل مل بحال نہیں ہوگی، بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ اسٹیل ملز صرف اسکریپ میں بکے گی۔ اسٹیل ملز میں لوگ بیٹھے ہیں، گیس بھی استعمال ہو رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی 50 سال میں کم ترین ہونے کی بات درست ہے۔ پی ایس ڈی پی میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو فنڈز دیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اب ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں، کم اہمیت کے منصوبوں کو شامل نہیں کر سکتے۔ قومی اقتصادی کونسل ایک اسٹریٹیجک فورم ہے، اسے بجٹ کا ٹول نہ بنائیں۔

"وزیراعظم کا دورہ چین سی پیک کے حوالے سے بہت اہم تھا"

دورہ چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ چین کا دورہ سی پیک میں نئی روح لایا ہے۔ چین کا دورہ سی پیک کے حوالے سے بہت اہم تھا۔

انکا کہنا تھا کہ خصوصی اقتصادی زونز سے چینی بزنس پاکستان شفٹ ہوگا۔ ہماری حکومت کا فوکس بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری ہے۔

موجودہ معاشی استحکام کسی ایک فیصلے کا نتیجہ نہیں ہے، وزیر مملکت برائے خزانہ

وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ سب کو اپنی آمدنی کے مطابق ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنا پڑے گا۔ موجودہ معاشی استحکام کسی ایک فیصلے کا نتیجہ نہیں ہے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ کیپسٹی چارجز پاکستان کی ساورن کمٹمنٹس ہیں ان کا احترام کرنا ہوگا، کیپسٹی چارجز کا اژدھا بجلی کا استعمال بڑھا کر قابو کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کا استعمال بڑھے گا تو کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ نیپرا کی رپورٹ کے مطابق تمام ڈسکوز کے صارفین اوور بلنگ کا بھی شکار ہیں۔

علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر میں کیپیسٹی پیمنٹس کے اژدھے کا احساس ہے، لوڈشیڈنگ نقصان والے فیڈرز پر گردشی قرض روکنے کے لیے کی جاتی ہے۔ پاور سیکٹر میں چوری اور اوور بلنگ کا سامنا ہے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ زراعت کا شعبہ وزیراعظم کے بہت قریب ہے، کسانوں کے معاشی مشکلات سے آگاہ ہیں۔ گندم کے معاملات وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں۔

اقتصادے سروے کے چیدہ چیدہ نکات

اقتصادے سروے کے مطابق صنعتی ترقی کی شرح 1.21 فیصد رہی، خدمات کے شعبے میں ترقی شرح 1.21 فیصد رہی۔جی ڈی پی گروتھ 2.38 فیصد رہی، زراعت میں شرح نمو 6.25 فیصد رہی۔

اس میں بتایا گیا کہ فی کس آمدنی 1680 ڈالر رہی۔ سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 13.1 فیصد رہی۔ رواں مالی سال میں بچتوں کی شرح 13 فیصد رہی۔

اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ ایک سال میں گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ ملک میں گھوڑوں کی تعداد 4 لاکھ تک ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح ایک سال میں اونٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہوا۔

بکریوں اور بکروں کی تعداد میں 2 کروڑ 2 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ بھیڑوں کی تعداد میں ایک سال میں 40 لاکھ کا اضافہ ہوا۔

ملک میں ایک سال میں گدھوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو بڑھ کر 59 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

سروے میں بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال ملک میں گدھوں کی تعداد 58 لاکھ تھی جبکہ مالی سال 22-2021 میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ تھی۔