’’یہ ویسے کی ویسی ہے‘‘

June 17, 2024

دلیل اور منطق کی تو سنی نہیں جا رہی، غالب اور فیض کے پسندیدہ مقام ’’شہر خرابات‘‘ کا رخ کرتےہیں اور اپنی سیاست، مقتدرہ کے کردار اور مستقبل کے سیاسی نقشے کا اس رومانوی اور کیف آور ماحول میں جائزہ لیتے ہیں۔ بھارتی غزل گائیک پنکج ادھاس نے مے خواروں کی دنیا پر بڑی مدھ بھری غزل گائی ہے جس میں انہوں نے مے خانے کی محبوبہ کے بارے میں گایا ہے کہ ’’شراب چیز ہی ایسی ہے‘‘۔ جوں جوں یہ غزل آگے چلتی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ مے خانہ کا ذکر نہیں یہ تضادستان کی نشہ آور داستان ہے۔

’’نہ چھوڑی جائے/یہ میرے یار کی جیسی ہے‘‘۔ مے نوش شراب نہیں چھوڑ پاتے چھوڑنا بھی چاہیں تو بقول شیخ ابراہیم ذوق ؔ ’’چھٹتی نہیں ہےمنہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ ہم تضادستانی کتنا بھی چاہیں کہ مقتدرہ کی مداخلت کا خاتمہ ہو جائے مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ جب آدھے لوگ مداخلت کے خلاف ہوتے ہیں کچھ مفاد پرست اسی مداخلت کو ’’میرے یار جیسی ‘‘ قرار دے کر اس مداخلت کو جواز فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی غزل میں بھارتی شاعر سردار ا نجم بہت پتے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں :؎

ہر ایک شے کو جہاں میں بدلتے دیکھا ہے

مگر یہ ویسے کی ویسی ہے، نہ چھوڑی جائے

یہ واقعی سچ ہے کہ دنیا کی ہر چیزبدل گئی ہے مگر صدیوں سے شراب بدلی ہے اور نہ شراب کا نشہ۔ یہ ویسے کی ویسی ہے۔

ہماری 75سالہ تاریخ میں دنیا کی ہر چیز بدل گئی، دنیا کے نظریات بدل گئے، مضبوط سرحدوں کےتصور سے دنیا نرم سرحدوں کے فائدے اٹھانے لگی مگر ہماری مقتدرہ ویسے کی ویسی ہے۔ وہی پرانے نظریات ہیں، وہی پرانے خیالات ہیں،کسی زمانے میں مضبوط سرحدیں، مضبوط ملک کی نشانی ہوا کرتی تھیں آج کل نرم سرحدیں ملک کو معاشی طور پر مضبوط بناتی ہیں۔ہماری سرحد بھارت کی طرف ہو، ایران سے ملتی ہو یا افغانستان سے ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں، سرحدیں گرم سے سرد ہوں گی تو ہن برسے گا ، یورپ میں ایسا ہو چکا ہے آج کی دنیا معیشت کی ہے، دفاع کے مقابلوں کے دن گئے اب معیشت کے مقابلے کا دَور ہے۔

دنیا میں ’’میرے یار کے جیسا‘‘ مقتدرہ اب بھی سب اداروں سے طاقتور ہے۔ پینٹاگون اب بھی طاقت میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کہیں زیادہ ہے لیکن تہذیب اورتجربے سے مہذب جمہوری ممالک میں مقتدرہ نے خود ہی فیصلوں کا اختیار منتخب نمائندوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے اور آہستہ آہستہ وہ سیاست سے پیچھے ہٹ کر دفاع اور ملکی سلامتی کی پالیسیوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ تضادستان میں بھی مقتدرہ دوسرے تمام اداروں سے مضبوط، ڈسپلنڈ اور بہتر ہے لیکن یہاں یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ ریاست کو منتخب نمائندوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے یا نہیں۔ کیونکہ دنیا بھر کی مقتدرہ کی طرح یہاں بھی یہ خیال رائج ہے کہ سیاست دان اس قابل نہیں، لیکن ہم ماضی کے تجربات میں دیکھ چکے ہیں کہ یہ ’’کرپٹ اور نااہل‘‘سیاستدان ملک کو ’ایماندار اور قابل‘‘ جرنیلوںسے بہتر چلاتے ہیں اور ان کے فیصلے زیادہ دانش مندانہ ہوتے ہیں۔ اب جبکہ مقتدرہ ’’ویسے کی ویسی ‘‘ نہیں رہنا چاہتی تو یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لے اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر سیاستدانوں کو پورا موقع دے، اس میں ان کو مدد فراہم کرے جیسا کہ ایس آئی ایف سی میں کی جا رہی ہے،اگرچہ مقتدرہ کے کئی لوگ یہ دعوے کر رہے ہیں کہ اب وہ مداخلت کے حق میں نہیں ہیں اور نہ ہی ویسی مداخلت ہو رہی ہے جیسی ماضی میں ہوتی تھی مگر حکومت،اپوزیشن اور عوام تینوں میں تاثر یہی ہے کہ اب بھی ملک کا نظام مقتدرہ ہی چلارہی ہے۔ جب تک خارجہ پالیسی اور داخلی پالیسی میں سیاست دانوں کے فیصلوں میں آزادانہ رنگ نظر آنا شروع نہیں ہوتا اس وقت تک ’’ویسے کا ویسا‘‘ کا تاثر ختم نہیں ہوگا۔

دوسری طرف دیکھئے تو ہمارےمحبوب اہل سیاست بھی مقتدرہ کی مے کے رسیا ہیں۔غالب اور فیض کاپسندیدہ تو باغیوں کا شہر خرابات تھا لیکن ہمارے اہل سیاست کا پسندیدہ ڈیرہ مقتدرہ کا شہر خرابات ہے، وہاں کی مے ان کی پسندیدہ ہے اور اکثر کو وہاں کاساقی مے پلا دے، اقتدار دلوا دے تو یہ نشے میں مدہوش ہو جاتے ہیں، کسی زمانے میںکپتان اس مے خانے کے مستقل مے خوار تھے، کبھی ساقی کی تعریف کرتے تھے اور کبھی مے خانے کی۔ شہرخرابات نے انہیں اقتدار کی مے کا ایسا جام پلایا کہ اپوزیشن، میڈیا اور عدلیہ کو تاراج کرنے پر تل گئے مگر پھرساقی نے مے خانے کا دروازہ ان پر بند کردیا اور نونیوں کو چور دروازے سے مے خانے کی جھلک دکھانا شروع کردی۔ وہ جو ووٹ کو عزت دو کی نعرے بازی کرتے تھے پھرسے مقتدرہ کے مے خانے کے اسیر ہوگئے ۔آج کل کے وزیر اعظم شہباز شریف مے نوش نہ ہونے کے باوجود مقتدرہ کی شراب ِطہور سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔یہ دائرہ 75 سال سے اسی طرح چل رہا ہے مے خانے میں ایک کو بلایا اور دوسرے کو دھتکارا جاتا ہے اور یہ سب ’’ویسے کا ویسا ہے‘‘۔

جہانِ رنگ و بو کی ہر شے بدل گئی مگر ہماری مقتدرہ نہیں بدلی۔ یہ ویسے کی ویسی ہے اسے کیسے بدلا جائے؟ اسے بدلنا ہے تو اسے اہل سیاست کو مے خانے کی لت ڈالنے سے باز رہنا چاہیے، یہ گیٹ نمبر چار سے مے خانے کا جو راستہ ہے وہی بند کردیا جائے بلکہ دنیا میں توتیزی سے یہ مے خانے بند ہوئے ہیں مقتدرہ کوبھی اسے بند کرکے معاشی ترقی کا شربت تیار کرنے کافیصلہ کرنا چاہیے۔

تضادستان اس وقت ایک اہم موڑ پر ہے اس موڑ پر ہمیں اہم ترین فیصلےکرنے ہیں، معاشی مقابلہ کرکے زندہ کیسے رہنا ہے ؟ سیاسی محاذ آرائی سے نکل کر استحکام کی طرف کیسے جانا ہے؟ مقتدرہ کا کردار اور منتخب نمائندوں کی اہمیت کا تعین ہونا چاہیے؟ تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں مقتدرہ خود پیچھے ہٹی ہے اسے کوئی طاقت سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا مقتدرہ نے شعور کو استعمال کرکے خود پچھلی نشست سنبھالی ہے ’’ویسے کی ویسی‘‘ کا دفتر بند کر دیا ہے اور بدلتی دنیا کے ساتھ بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے تضادستان میں بھی شعور ہی یہ تبدیلی لائے گا۔