ملک کے مسائل اور اس کے قائدین

March 19, 2014

شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر گزشتہ آدھی صدی سے پاکستان میں اتھل پتھل ہے۔ یہاں کے تمام ادارے، سوسائٹیاں، سرکاری و غیر سرکاری انسٹیٹیوشن، ایسوسی ایشن، اکیڈمیاں، یونیورسٹیاں، پارٹیاں، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور تمام اعلیٰ و ارفع قدریں گڈمڈ اور اتھل پتھل ہو چکی ہیں۔ آج سیاست میں ہمارا کام یہ تلاش کرنا نہیں ہے کہ سچ کیا ہے بلکہ یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے لیکن یہاں تو اس کے بارے میں غور و فکر ہی ناپید ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ ارباب اختیار کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں، کوئی مطلب نہیں کہ 45؍فی صد پاکستانی خط غربت سے نیچے آ گرے ہیں۔ دو یا تین وقت کی روٹی کی بات تو چھوڑیئے انہیں دن میں ایک بار بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا اور یہ بات طے ہے کہ آدھے سے زائد آبادی اگر بھوکے پیٹ ہو تو کسی بڑی طاقت کو اس پر غالب آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں غربت، بیروزگاری، رشوت ستانی، لوٹ مار، قتل و غارت، فرقہ واریت، مذہبی شدت پسندی اور سماجی تانے بانے ادھیڑتی جا رہی ہو وہاں کچھ بھی بعید نہیں۔ کچھ معاملات تو ایسے ہوتے ہیں جن پر قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ حکمران ملک اور اس کے عوام کی قیادت یا حفاظت نہیں بلکہ اپنے اقتدار اور مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اپنی غربت اور ملک کے غریبوں کو مٹا رہے ہیں۔ نظم و نسق کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ روزمرہ کے مسائل تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں جو عوامی زندگی کو نت نئے مسائل سے دوچار کر رہے ہیں کہ جہاں وسائل نہ ہوں وہاں مسائل پر مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مسائل چھیڑنا، مسائل پیدا کرنا، مسائل کا رخ پھیرنا، اصل مسائل کو دبانا، وسائل (جیسے برے بھلے ہوں) کے باوجود نئے نئے اور پیچیدہ مسائل پیدا کرنا اور جو مسئلہ نہ ہو اسے مسئلہ بنا کر پیش کرنا حکمرانوں کا خاص فن ہے۔ ورنہ ملک اور معاشرے کے اصل مسائل وہی ہیں جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں اور جنہیں دبانے کے لئے مصنوعی مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں کہ اگر مصنوعی مسائل پیدا نہ کئے جائیں تو حقیقی مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے لہٰذا مسائل دبانے یا پیدا کرنے کے فن کا استعمال کچھ لوگوں کی اپنی ضرورت ہے اور شدید ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی اوپر لکھا ہے کہ ہمارا کام یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ نظریہ سے وابستگی ہی وہ وصف ہے جس کے ذریعے برائیوں کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں دور حاضر ’’اقدار‘‘ کا نہیں ’’اقتدار‘‘ کا زمانہ ہے جس پر ہمیشہ حکمران ’’قابض‘‘ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقدار اس دھرتی سے منہ موڑ چکی ہے۔ جہالت، تعصبات، انتہاپسندی، استحصال، شدت پسندی، توہمات، لوٹ مار، ڈاکے اور قتل کا سورج ایک دیوتا بن چکا ہے اور یہ دیوتا سوا نیزے پر بھی آ سکتا ہے کہ پاکستان وہ دھرتی ہے جس کے بارے میں اس کے بچّے بالے آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اسے کیا بننا ہے؟ اس دھرتی پر گھر بسانے کے لئے کن اقدار کی ضرورت ہو گی اور یہ کیسا پاکستان ہو گا؟ کسی نے اسے پاکستان نہیں بننے دیا تو کسی نے اسے نیا پاکستان بنا ڈالا تو کوئی اسے ’’ہر ملک ملک ما است‘‘ کی عملی شکل میں دیکھتا ہے تو کوئی اسے اجڈ، گنوار لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے وجود میں آنے والی ریاست کی شکل میں دیکھتا ہے، کوئی اسے سبز گردانتا ہے تو کوئی اسے پیدائشی سرخ سمجھتا ہے، کوئی اسے لولا لنگڑا ملک تصوّر کرتا ہے تو کوئی اسے خودمختار ملک مانتا ہے، کوئی اسے جاگیرداروں اور وڈیروں کی آماج گاہ مانتا ہے تو کوئی اسے ہاریوں کے لئے جنم لینے والا ملک، کوئی یہاں خلافت کا نظام لانا چاہتا ہے تو کوئی سوشلسٹ معیشت کا نام لیتا ہے، کوئی اسلام کا قلعہ، کوئی اسے مملکت خداداد سمجھتا ہے تو کوئی انگریزوں کی سازش، کوئی اسے کشمیر کے بغیر نامکمل سمجھتا ہے تو کوئی ماچس کی ڈبیا کے برابر کشمیر بھی قبول کر لیتا ہے، کوئی کارگل کی ایک انچ زمین کھونے کو تیار نہیں ہے تو کوئی مشرقی پاکستان کو کھو کر بھی مطمئن ہے، کسی نے اس ملک کے لئے بادشاہت کا مشورہ دیا تو کوئی فوجی حکمرانی کو ہی ملک کے لئے بہترین فارمولا تصوّر کرتا ہے، کوئی یہاں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی بنیادی جمہوریت کے گن گاتا ہے، کوئی یہاں شریعت نافذ کرنا چاہتا ہے تو کوئی تھیوکریسی کا دلدادہ ہے، کوئی اس کے تمام مسائل کا حل بھارت دوستی میں دیکھتا ہے تو کوئی بھارت کو دشمن نمبر ایک قرار دیتا ہے، کوئی یہاں مغربی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو آزمانا چاہتا ہے تو کوئی مساوات محمدیؐ نافذ کرنا چاہتا ہے، کوئی مکّا دکھا کر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو بے مہار اور غیر مشروط ہو چکا ہے سو یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کہ یہ بھی اسی ملک کی پیداوار ہے۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ یہ عجیب میدان ہے کہ اس میں نہ کوئی فعل مکروہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اصول قائم رکھا جاتا ہے۔ کیا ہم جنگل کے قانون یا جنگل راج میں جی رہے ہیں؟ کیا ہم ایک مہذب سماج کا حصّہ نہیں ہیں؟ پاکستان بقول شخصے نیوکلیئر طاقت ہے لیکن امن و امان کے حوالے سے وہ تھرڈ ورلڈ سے بھی تعلق رکھتا دکھائی نہیں دیتا۔ ملک کے استحکام کو باہر سے نہیں اندر سے خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ 12-13 ماہ کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت، حساس ادارے اور خفیہ ایجنسیاں تخریب کاروں سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ تخریب کار جب اور جہاں چاہیں دھماکے کر جاتے ہیں اور حساس ایجنسیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اصل مجرم کون ہے اور اس کے منصوبے کیا ہیں؟
میرے حساب سے آج ہمیں جن حالات کا سامنا ہے وہ بیرونی دشمن سے تصادم کے سبب نہیں بلکہ یہ تصادم جہالت، انتہاپسندی، ہٹ دھرمی، بے حسی، بیروزگاری اور عدم برداشت کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں (اور یہ کہنے والا میں بھی ہو سکتا ہوں) کہ پاکستان بذات خود عدم برداشت کا نتیجہ ہے۔ ملک میں عوام کو اتنا مارا، رگڑا، پیسا، روندا اور بھینچا گیا ہے کہ وہ بیچارے جدھر اور جیسا راستہ ملے منہ اٹھائے چل دیتے ہیں۔ جیسے ہم دھرتی کے بیٹے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنے لئے جگہ نہ پا کر وہ گلی ہی چھوڑ گئے جس کا راستہ ’’اقتدار‘‘ کی ہائی وے سے ملتا تھا، سو ہم اس سے جدا ہو کر ملکوں ملکوں ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ ایک ماں وہ جس نے ہمیں جنم دیا اور ایک ماں دھرتی جس نے ہمیں پالا پوسا اور اونچ نیچ سکھائی۔ دونوں ایک دن خالی ہاتھ رہ جاتی ہیں کہ جو مائیں اپنے بچّوں کو اپنی چھاتی کا دودھ نہیں پلا سکتیں وہ بچّے ان کی گود، ہاتھ اور سائے کو جلد چھوڑ جاتے ہیں۔