زندگی تیز، کہیں گمشدہ ہے صاحب!

March 20, 2014

بچپن میں جو پرائمری اسکول میرے مقدر میں تھا وہ بڑا سادہ سا اسکول تھا۔ ضلع سیالکوٹ میں قائم اس اسکول میں ایک ماسٹر صاحب بڑی شدومد سے ایک بات کیا کرتے تھے، اس وقت ہم اسے عام سی بات سمجھتے تھے مگر پھر زندگی کے بہت سے ماہ وسال گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بات جسے ہم خاص نہیں سمجھتے تھے وہ بہت ہی اہم ہے۔ زندگی کے کھیل میں اس اہم بات سے انکار ممکن نہیں۔ ماسٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’موت برحق ہے مگر قبر اور کفن پر شک ہے‘‘۔ اب جب ملائیشیا کا بدقسمت طیارہ لاپتہ ہوا تو مجھے بچپن کی سنی ہوئی بات رہ رہ کر یاد آتی رہی۔ بدقسمت لاپتہ طیارے کی ابھی تک کوئی خبر نہیں مل سکی۔ جدید ترین دور کی تمام جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود طیارہ غائب ہے۔ پتہ نہیں چل رہا کہ اس طیارے کو آسمان کھا گیا ہے یا زمین نگل گئی ہے۔ کوئی گلیشیئر طیارے کو کھا گیا ہے یا سمندر نے اسے اپنے اندر سمولیا ہے۔ ٹیکنالوجی ناکام ہوگئی ہے، ریڈار کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں۔ جادوگر اپنے جنتر منتر پڑھ چکے ہیں لیکن کامیابی کہیں دکھائی نہیں دے رہی، مسافروں کی زندگیوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ موت کے منہ میں جاچکی ہیں یا زندگی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ اگر زندگیاں موت میں تبدیل ہوچکی ہیں تو پھر قبر اور کفن خواب بن چکے ہیں، موت برحق ہے، ہر جاندار کا مقدر ہے، ہر ایک کو آکر رہے گی۔ رہ گئے ورثا، ان کی بدحالی پر ترس آرہا ہے کہ ان کی آنکھیں پیاروں کی تلاش میں بجھتے ہوئے چراغوں کی مانند ہوگئی ہیں۔ ان آنکھوں نے رو رو کر اپنا حال تھر جیسا کرلیا ہے اب ان آنکھوں میں پانی نہیں آنکھیں تھر بن گئی ہیں۔ اگر ورثا کو پتہ چل جائے کہ ان کا پیارا خدا کو پیارا ہوگیا ہے تو قدرت ورثا کو صبر عطا کردیتی ہے لیکن اگر گمشدگی کا معاملہ ہو تو پھر ورثا باقی زندگی بدحالی میں گزارتے ہیں، ان کے سامنے ہر وقت پیارے کا ’’چہرہ‘‘ پھرتا رہتا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے گمشدہ افراد کے ورثا کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کا مقدمہ ان دنوں سپریم کورٹ میں ہے، آخری طلبیاں ہورہی ہیں، پتہ نہیں کل کیا سے کیا ہوجائے۔میں جب بھی گمشدہ افراد کے ورثا کے چہرے دیکھتا ہوں تو مجھے جی ٹین اسلام آباد کی وہ عورت یاد آجاتی ہے جس کا بچہ آج سے دس سال پہلے گم ہوگیا تھا پچھلے دس سالوں میں جب کبھی بارش ہوتی ہے تو یہ بدحال ماں ٹیرس پر آجاتی ہے اور اونچی آواز میں کہتی ہے۔ ’’میرے بیٹا! بارش آگئی ہے، کسی چھت کے نیچے چلے جائو، تم بھیگ جائو گے فوراً کمرے میں چلے جائو…‘‘ شام ہوتی ہے تو مامتا پھر جاگتی ہے وہ عورت گلی میں آجاتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’میرے بیٹا کھانا کھا کر سونا، کھانے کے بغیر نہ سونا…‘‘ دوپہر کو یہ عورت دروازے پر کھڑی ہوجاتی ہے اور یہ کہتی رہتی ہے کہ… ’’سب کے بچے اسکولوں سے واپس آرہے ہیں، بیٹا تم ابھی تک کیوں نہیں آئے…‘‘ یہ کہتے کہتے شام ہوجاتی ہے، دس برسوں میں نہ جانے کتنی شاموں کو اس خاتون کی صدائوں نے اداس کردیا ہو، کتنی بارشوں میں تیز ہوائوں نے سوگواری بکھیری ہو، یہ صرف ایک ماں کی بات نہیں، ہر ماں کا یہی حال ہوتا ہے مگر یہ حال وقت کی بے رحم صدائوں میں گم ہوجاتا ہے، یہی گمشدگی، بدحالی کا شاخسانہ ہے، خدا ایسی بدحالی سے بچائے۔ابھی تھر میں زندگی تھر تھر کانپ رہی ہے، ابھی تھر کے دکھ ختم نہیں ہوئے تھے کہ مظفر گڑھ، چنیوٹ اور اندرون سندھ میں ظلم کی داستانیں رقم کردی گئی ہیں۔ مظفر گڑھ میں بے بس طالبہ نے پولیس کے سامنے خود کو موت کے ’’حوالے‘‘ کیا۔ بعد میں جتنی مرضی انگلیاں ہلائی جائیں جو ظلم ہونا تھا وہ ہوگیا، ظلم کی دوسری داستان پنجاب ہی کے ضلع چنیوٹ میں رقم کی گئی جہاں حوا کی بیٹی کو تماشا بناکر رکھ دیا گیا، تیسری داستان کے مرکزی کردار اندرون سندھ سے قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر دو خواتین کے قتل کو جائز قرار دے دیا، پنچایت کے چیف کے طور پر ان کے فیصلے پر انصاف رو رہا ہے۔ ظلم کی ایسی داستانوں پر پتہ نہیں کتنی آنکھیں آشکبار ہوئی ہوں، کتنی مرتبہ انصاف رویا ہو اور کتنی بار انسانیت لرز گئی ہو، ایسے انسانیت سوز واقعات وقت کے بے رحم لمحوں میں ہمارے چہرے پر دھبہ ہیں۔ یہ واقعات ہماری مجموعی معاشرتی بے حسی کی تصویر ہیں، یہ واقعات ہماری انتظامی نااہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ڈالروں کا معاملہ زیر بحث ہے، ڈالر کیا آئے ہر طرف بحث کے دروازے کھل گئے، پہلا دروازہ شیخ رشید احمد نے کھولا تھا اب اس پر الطاف حسین اور طاہر القادری بھی جادو جگارہے ہیں۔ پرویز رشید اور اسحاق ڈار توڑ کررہے ہیں،مولانا فضل الرحمٰن بھی حساب کتاب کے طلب گار ہیں۔ الطاف حسین نے حکمرانوں کی طرف سے قومی سلامتی بیچنے کی باتیں کی ہیں انہوں نے افواج پاکستان کو بھی کچھ پیغامات دیئے ہیں۔ ایسی ہی باتیں ڈاکٹر طاہر القادری نے کی ہیں۔
لگے ہاتھوں ظلم کی ایک اور داستان سن لیں۔ آج سے برسوں پہلے میرے ایک دوست عبدالحمید تبسم ایک شخص کو میرے پاس لائے اور کہنے لگے کہ یہ شاعر کرامت بخاری ہیں، یہ سی ایس پی افسر ہیں۔ جب اس تعارف کو برسوں گزر گئے تو پتہ چلا کہ کرامت بخاری بھی ظلم کا شکار ہیں اگرچہ انہوں نے اس ظلم کیخلاف وزیراعظم اور صدر مملکت کو اپیل کی ہے پھر بھی یہ آپ کے علم کیلئے ضروری ہے تاکہ آپ کو خبر ہوسکے کہ ظلم نے کہاں کہاں بسیرا کر رکھا ہے۔ تیرہ کتابوں کے حامل اس شاعر نے 1982ء میں سی ایس ایس کیا۔ گریڈ بیس کے اس افسر کی اکتیس سالہ شریفانہ نوکری کا صلہ یہ ہے کہ پچھلے دس ماہ سے او ایس ڈی ہے، پچھلے ایک برس میں سات مرتبہ ٹرانسفر ہوئی ہے، بیچ فیلو گریڈ 22 میں نوکریاں کررہے ہیں اور یہ شاعر (کرامت بخاری) گریڈ بیس میں دھکے کھارہا ہے۔ ناانصافیوں کیخلاف لاہور ہائی کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا مگر فیصلے پر عمل نہ کیا گیا بلکہ سزائوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، ان سزائوں میں سے ایک سزا تنخواہ کی بندش بھی تھی۔ یہ بندش اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم کی۔ ترقی کی بندش بھی سزا ہے جسے وزیراعظم ہی حل کرسکتے ہیں۔ کرامت بخاری سے جو سینئر بارہ افسران ترقی کی منازل طے کرکے زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں ان میں نیب زدہ افسران بھی شامل ہیں مگر کرامت بخاری زندگی کی صورت کو حیرت سے دیکھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ ظلم کا ایک ’’چہرہ‘‘ ایسا بھی ہوتا ہے جس میں انسان بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔ آخر میں کرامت بخاری کا شعر پیش خدمت ہے کہ:
بنجر زمیں کی گود میں پھیلے ہیں خار و خس
اے ابرِ برشگال ذرا ٹوٹ کے برس