مخصوص نشستوں کا کیس، 2018ء اور 2024ء میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟ الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب

July 01, 2024

اسکرین گریب سپریم کورٹ یوٹیوب لائیو اسٹریمنگ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کر لیں کہ بتایا جائے کہ 2018ء اور 2024ء میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔

پی ٹی آئی نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں 30 منٹ میں دلائل ختم کر دوں گا، آج 4 نکات پر بات کروں گا، الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر ہیں، تحریکِ انصاف نے پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے، پی ٹی آئی کے پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 پر چیئرمین گوہر علی خان نے دستخط کیے، وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری ہوئے تو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے تھے، پی ٹی آئی نے 22 دسمبر کو فارم 66 اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ لگانا چاہیے تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ بتا دیں کہ پی ٹی آئی کے کاغذاتِ نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹ منسلک ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین منتخب نہیں ہوا تھا؟

’’حامد رضا نے کاغذاتِ نامزدگی میں خود کو سنی اتحاد کا امیدوار کہا‘‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین منتخب نہیں ہوئے تو کاغذاتِ نامزدگی درست نہیں، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، حامد رضا نے کاغذاتِ نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریکِ انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جمع کرایا، کاغذاتِ نامزدگی میں حامد رضا نے تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد ظاہر کیا، کاغذاتِ نامزدگی میں تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد کا کیس نہیں ہے۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے سوال کیا کہ یعنی امیدوار نے جو ظاہر کیا اسی پر کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوئے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارٹی سے وابستگی تو تحریکِ انصاف سے ہے۔

جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ آپ نے کاغذاتِ نامزدگی میں پارٹی اسٹیٹس دیکھا یا خود ہی آزاد ڈیکلیئر کر دیا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ میں نے خود سے آزاد امیدوار ڈیکلیئر نہیں کیا، کاغذاتِ نامزدگی کو دیکھا ہے، میں نے حامد رضا کی درخواست دیکھی جس میں کہا گیا کہ آزاد امیدوار ڈیکلیئر کر دیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا تحریکِ انصاف نظریاتی کا سرٹیفکیٹ منسلک تھا یا نہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی میں تحریکِ انصاف تحریر کیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ حامد رضا کی ہر دستاویز ان کی پچھلی دستاویز سے مختلف ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ دینا چاہیے تھا یا آزاد امیدوار کا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ جمع کرانا چاہیے تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیکلریشن میں تو حامد رضا نے خود کو تحریکِ انصاف کا امیدوار ظاہر کیا، نہ کہ آزاد امیدوار۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ 10 جنوری کو ہوا، 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریکِ انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کا الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریکِ انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کا بتا دیتی تو کچھ ہو سکتا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر تحریکِ انصاف والے ایسا کرتے تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہو جاتا۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے آ رہا تھا: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آ رہا تھا، تحریکِ انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹ بال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے ہیں، اصل گیم 90 منٹ کا ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا کہ انتخابات جائز ہوئے یا نہیں؟ 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کے لیے پارٹی ہے۔

’’پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، بطور وزیرِ اعظم درخواست دی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے سال دے دو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمد خان نے نہ سرٹیفکیٹ، نہ ہی ڈیکلریشن میں کچھ لکھا ہوا ہے، ایسے بے شمار ہیں جو کاغذاتِ نامزدگی میں بلینک ہیں۔

اردو کمزور ہے، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتا ہوں: وکیل الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میری اردو کچھ کمزور ہے، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتا ہوں۔

وکیل کو کنول شوذب کا صحیح نام لینے میں دشواری

وکیل سکندر بشیر کو اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما کنول شوذب کا صحیح نام لینے میں دشواری پیش آئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ کنول شوذب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہیے، یہ فیصلے سے متاثر نہیں ہوتیں، کنول شوذب تحریکِ انصاف میں ہیں، خواتین ورکرز ونگ کی سربراہ ہیں، 4 لوگ بطور آزاد امیدوار ایم این اے منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل میں ضم نہیں ہوئے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ دیا، لیکن آزاد امیدوار کیسے قرار پائے؟

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق کتنے امیدواروں کا سرٹیفکیٹ و ڈیکلریشن منظور ہوا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ سب آزاد امیدوار ہی رہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدواروں کے پاس اختیار ہے کہ 3 روز میں کسی سے منسلک ہو جائیں، سب معاملہ حل ہو جائے گا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروانے پر ڈس کوالیفائی ہوئی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہیں بھی کسی پارٹی کو ڈس کوالیفائی نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی اور پارٹی کو ڈس کوالیفائی کر دیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد نے الیکشن نہیں لڑا تو آزاد امیدوار اس میں شامل نہیں ہو سکتے، ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ بی اے پی نے مخصوص نشستوں کی لسٹ نہیں دی، ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ بی اے پی کو لسٹ نہ دینے کے باوجود نشستیں دی گئیں، الیکشن کمیشن نے کیا اس ریکارڈ پر کوئی میٹنگ رکھی؟ کچھ ریکارڈ کو پرکھا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کہ ایسا کوئی الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود نہیں، موجودہ کیس میں تو مکمل سماعت ہوئی۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کو کم سے کم گزشتہ انتخابات کو تحریر کرنا چاہیے تھا، ابھی پوزیشن کچھ اور ہے، اس سے قبل کچھ اور رکھی، آپ نے تو بلوچستان عوامی پارٹی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتیں تو دوسرے صوبے میں نہیں مل سکتیں۔

8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے، یہ کیا درست ہے؟ جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ہر انتخابات الگ ہوتے ہیں، اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا یہ درست ہے؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل

اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا بیرسٹر گوہر علی خان موجود ہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل کے سوال پر گوہر علی خان روسٹرم پر آ گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے کہا کہ پہلی سماعت پر پوچھا تھا کہ کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفکیٹ دیے تو آپ نے ہاں کہا، الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذاتِ نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں؟ کون سا بیان آپ کا درست ہے؟

بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ ہر امیدوار دو دو فارم جمع کروا سکتا ہے، آزاد امیدوار اور تحریکِ انصاف کے جمع کروائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریکِ انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لیے آپ نے؟

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 1 حلقے کے لیے 4 کاغذاتِ نامزدگی جمع ہوتے ہیں، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا ہے، الگ الگ پارٹیوں سے کاغذاتٍ نامزدگی جمع نہیں کروائے، 22 دسمبر کو 4 بجے سرٹیفکیٹ پہنچا دیے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا ہی نہیں۔

جے یو آئی و دیگر فریقین نے الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا لیے

جے یو آئی ف کے وکیل نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے دلائل اختیار کرتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ٹھیک کام کیا؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ایسا ہے کہ آپ کی پارٹی میں غیر مسلموں کو نہیں لیا جاتا۔

جے یو آئی ف کے وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ ہمارے منشور میں نہیں، مس پرنٹ تھا جس سے غلط فہمی ہوئی۔

اس موقع پر دیگر فریق جماعتوں کے وکلاء نے بھی الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل اختیار کر لیے۔

ایڈووکیٹ جنرل KPK نے سنی اتحاد کے دلائل اختیار کیے

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا نے روسٹرم پر آکر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے جمع کروا دیے اور کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے دلائل اختیار کر رہا ہوں، میں الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورے پاکستان کی بات نہیں کر رہے، خیبر پختون خوا کی بات کریں، بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان کی پارٹی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پوری بات کریں ناں کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا بلوچستان سے تعلق ہے، 3 آزاد امیدوار جیتے اور انہوں نے بی اے پی میں شمولیت اختیار کی، بلوچستان اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بی اےپی نے انتخابات نہیں لڑے پھر بھی اسے مخصوص نشستیں ملیں؟

جسٹس منیب اخترنے ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے کہا کہ آپ کے پی سے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ بی اے پی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی اور مخصوص نشستیں مل گئیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا سے سوال کیا کہ کیا آپ نے 2018ء میں چیلنج کیا؟

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا نے جواب دیا کہ میں صرف ریکارڈ جمع کروا رہا ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 2018ء میں بھی تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، جواب دیں؟ جو سیٹیں تب ملیں ٹھیک ملیں یا نہیں

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا سے کہا کہ مجھے آپ کی سمجھ نہیں آئی۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا نے جواب دیا کہ بی اے پی کے انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن کا الگ فارمولا تھا، الیکشن کمیشن کا اب کیوں الگ فارمولا ہو رہا ہے؟

ایڈووکیٹ جنرلز پنجاب، وفاق، بلوچستان نے اٹارنی جنرل کے دلائل اختیار کر لیے

اس موقع پر پنجاب، وفاق اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اختیار کر لیے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ میں آدھا گھنٹہ جواب الجواب کے لیے لوں گا۔

سماعت میں مختصر وقفہ

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد سماعت، اٹارنی جنرل کے جواب الجواب دلائل

کیس کی سماعت مختصر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 51 اشارہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں کا مطلب خواتین کو با اختیار بنانا ہے، 2002ء میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملی۔

اٹارنی جنرل نے خواتین کی نمائندگی سے متعلق ماضی کی قومی اسمبلی میں سیٹیں بتائیں اور کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد 60 مخصوص نشستوں کا مطلب نمائندگی کو بڑھانا ہے، آرٹیکل 51 کا مطلب خواتین کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی نمائندگی دینا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ووٹنگ کا طریقہ کار بتایا اور کہا کہ سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کر کے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں، اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اور پھر مخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں، اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئین کا مقصد خواتین اور غیر مسلموں کو نمائندگی دینا ہے، اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہو گا، مخصوص نشستوں سے متعلق فارمولا فکس ہے اور تبدیل نہیں ہوتا، فارمولا بتاتا ہے کہ کتنی جنرل سیٹیں ایک مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے چاہئیں۔

اٹارنی جنرل نے بلوچستان اسمبلی کی مثال دے کر فارمولا سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دیا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ پارٹی کے مطابق مخصوص نشستوں کا فارمولا بتائیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ 2002ء سے کیا ایک ہی فارمولا استعمال ہو رہا ہے؟ کیا مستقل مزاجی سے ایک ہی فارمولا استعمال ہو رہا ہے؟ الیکشن کمیشن کب سے فارمولا استعمال کر رہا ہے؟ قانون کے بدلنے کے بعد کیا فارمولا تبدیل نہیں ہوا؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے پر تنازع شروع ہوا، اگر الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہ کرتا تو تنازع نہ ہوتا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلیوں میں تمام سیٹیں مکمل ہونا ضروری ہیں، اسمبلیوں میں ایک بھی سیٹ خالی نہیں رہنی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر سنی اتحاد کونسل کے لیے بھی مخصوص نشستوں کا تعین کیا، الیکشن کمیشن نے بعد ازاں سنی اتحاد کونسل کو نشستیں الاٹ نہیں کیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا اسٹیٹس بھی کلیئر نہیں تھا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت سمجھ کر ہی الیکشن کمیشن نےمخصوص نشستیں الاٹ کیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین نہیں کہہ رہا کہ فارمولے کے مطابق مخصوص نشستوں کا تعین کرتے وقت آزاد امیدواروں کی سیٹیں کم کردی جائیں گی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آزاد امیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوں گے تو آزاد ہی تصور ہوں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آزاد امیدواروں کی سیٹیں تو آپ نے شامل کی ہیں ناں؟ آزاد امیدوار کم کر دیں تو سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستیں بھی کم ہو جائیں گی، آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا تو کیا وہ کہیں بھی نہیں ہو گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی حیثیت کسی سے کم نہیں، کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آرٹیکل 51 کی تشریح کرتے اتنے دن گزر گئے، کیا کچھ مشکل ہے سمجھنے میں؟ آئین کیسے بنا؟ کیوں بنا؟ عدالت نے تبدیل نہیں کرنا، میرے سامنے جو آئین کا پیٹرن آئے گا اسی طرح دیکھوں گا ناں، اتنا وقت لگا رہےہیں، کون سا مشکل کام ہے، عدالت نے آئین پر چلنا ہے۔

کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا: جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا کہ پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، وکلاء اور ججز کے لیے نہیں، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے، آئین ایسے بنایا جاتا تاکہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمزور ججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں ناں۔

جسٹس منصور کے جملے پر عدالت میں قہقہے

جسٹس منصور علی شاہ کے اس جملے پر عدالت قہقہوں سے گونج اٹھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، عدالت چاہتی ہے کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزاد امیدوار بنا دے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزاد امیدوار آیا ؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کہتی ہے کہ آزاد امیدوار شامل ہونا چاہتے ہیں، سنی اتحاد کونسل کہتی ہے کہ سنی اتحاد مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے سوال کیا کہ کتنا وقت لیں گے؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ مزید 1 گھنٹہ لوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن سپریم کورٹ یا حکومت کے ماتحت ادارہ نہیں جس کی کوئی بات نہیں کر رہا، آئین کے 12 حصے ہیں جس کا ایک حصہ انتخابات سے متعلق ہے، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، الیکشن کمیشن کو کہیں آپ اپنا کام کریں، حکومت کو اپنا کام کرنے دیں، کوئی غیر آئینی کام کیا ہے تو بتائیں، ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خود مختار آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئے گا ہم نظرِثانی نہیں کر سکتے، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی ہے، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتاہے کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے، کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف صاحب کہہ رہے کہ الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی جماعت کو فیصلے کی غلط تشریح سے نااہل کر دے تو اصل سوال یہ ہے، جس کو دیکھنا چاہیے۔

سماعت کل صبح تک ملتوی

عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کیں کہ 2018ء اور 2024ء میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟ اور سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کا گزشتہ سماعت کا اضافی نوٹ

گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ میں کہا تھا کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح غلط ہوئی، اس غلط تشریح سے بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکال کر ووٹرز کو بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا،مخصوص نشستوں کا کیس صرف نشستوں کا نہیں، یہ اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی ووٹرز کے بنیادی آئینی حقوق کا کیس ہے، الیکشن کمیشن مطمئن کرے کہ عام انتخابات میں سب کو یکساں مواقع دے کر اپنی آئینی ذمے داری پوری کی، الیکشن کمیشن تحریری بیان دے کہ کیا پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا قانونی عمل تھا؟