ظالم کون، آئی ایم ایف یا حکومت؟

July 04, 2024

زوال اور انحطاط کی ایک بڑی نشانی اور علامت یہ ہوتی ہے کہ ہر گزرا ہوا دن سہانا لگتا ہے۔ آنے والے دن کا سورج ابتلا و آزمائش کا ایک نیا سلسلہ لیکر طلوع ہوتا ہے تو انسان خود کلامی کے انداز میں کہتا ہے اس سے تو گزشتہ روز، ہفتہ، مہینہ یا سال بہتر تھا۔ قوموں کی زندگی میں بھی خودترحمی کے وہ لمحات بہت بھیانک ہوتے ہیں جب ماضی کی سب حکومتیں اور ادوار بھلے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ہم بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ایوب خان کا دور بہت اچھا تھا۔ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے جب اس پہیلی کو سلجھانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ پاکستان کی تباہی و بربادی کی فصل اسی نام نہاد صنعتی انقلاب اور مصنوعی معاشی ترقی کے دور میں تو بوئی گئی۔ پھر آخر بڑی عمر کے لوگ اس زمانے کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں کیوں بھرتے ہیں؟ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جس طرح کے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا، اس سوال کا جواب مل گیا۔ ہم نے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی دیکھی، لوگ کہتے تھے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی۔ 18,18گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ شوکت عزیز کے بعد شوکت ترین آئے، حفیظ شیخ کو معاشی جادوگر کے روپ میں پیش کیا گیا لیکن معاشی مسائل حل نہ ہوئے۔ چنانچہ عوام نے مایوس ہوکر مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ دے دیا۔ اگرچہ یہ دور نسبتاً بہتر تھا مگر لوگ مطمئن نہیں تھے۔ تبدیلی کی خواہش میں نیا پاکستان بنا دیا گیا، تحریک انصاف کی حکومت نے سب امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر دیا۔ بدترین کارکردگی کے باعث مقبولیت بھاپ کی طرح اڑنے لگی۔ پالیسیوں اور اقدامات کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو پی ڈی ایم کی حکومت آ گئی، شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ عام انتخابات کے بعد شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور یہ ان کی حکومت کا پہلا بجٹ ہے مگر اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے ظالمانہ بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ لوگ پریشان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ ملک اشرافیہ کیلئے تو جنت ہے مگر عام آدمی کیلئے جہنم بن چکا ہے۔ اب یہاں رہ کر جائز اور قانونی طریقے سے روزی روٹی نہیں کمائی جا سکتی۔ عوام کی اکثریت ٹیکس نہیں دے رہی مگر حکام انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے پہلے سے معیشت کا بھاری بوجھ اُٹھانے والوں پر مزید ٹیکس لگاتی چلی جا رہی ہے۔ بالخصوص نجی شعبہ میں کام کر رہے تنخواہ دار طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے۔ یہ احساس پختہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اگر آپ کے پاس تھوڑے بہت وسائل دستیاب ہیں اور آپ کسی اور ملک جا کر آباد ہو سکتے ہیں تو یہاں سے زندہ بھاگ جانے میں ہی عافیت ہے۔ اب لوگ نہ صرف جنرل پرویز مشرف کا زمانہ یاد کرتے ہیں بلکہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت بھی موجودہ دور کے مقابلے میں بھلی محسوس ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ وقت گزر جانے کے بعد گزشتہ حکومت کا تاثر اس لئے بہتر ہو جاتا ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت ظلم و جبر کے نئے انداز و اطوار لیکر آتی ہے تاکہ عوام کی رگِ جاں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑا جا سکے۔

اب جبکہ وزیراعظم شہبازشریف بذات خود یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف سے ملکر بنانا پڑا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، تو کیوں نہ یہ مغالطہ بھی دور کر لیں کہ عام آدمی کے حالات تلخ تر کردینے کی ذمہ دار آئی ایم ایف ہے۔ اس سے پہلے بھی جب کبھی حکومتوں نے مشکل فیصلے کرنا ہوتے ہیں تو آئی ایم ایف کو ولن کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ہم نے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ہے لہٰذا ہمیں تمام جائز و ناجائز مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مثلاً بجلی مہنگی کرنا، پیٹرول پر لیوی بڑھانا، دودھ اور سیمنٹ پر ٹیکس لگانا، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانا، یہ سب اقدامات آئی ایم ایف کے دبائو میں کرنا پڑ رہے ہیں۔ مگر یہ باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ مجھے بتائیں اگر واقعی آئی ایم ایف کا دبائو ہے تو سرکاری افسروں، جج صاحبان، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر مراعات یافتہ طبقے کو مفت پیٹرول اور بجلی کے یونٹ دینے کی سہولت واپس کیوں نہیں لی جاتی؟ مہنگی اور پرتعیش گاڑیوں کے بجائے افسر شاہی اور منتخب عوامی نمائندوں کو چھوٹی گاڑیاں رکھنے کا کیوں نہیں کہا جاتا؟ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟ حکومت اپنے شاہانہ اخراجات کم کیوں نہیں کرتی؟ اگر عام آدمی کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت کیا گیا ہے تو پھر صنعتکاروں کو فراہم کی جانے والی بجلی پر 10روپے یونٹ کی چھوٹ کیوں دی گئی ہے؟ پراپرٹی ٹیکس اگر آئی ایم ایف کے دبائو پر لگایا گیا ہے تو پھر سول اور ملٹری حکام کو استثنیٰ کس کے کہنے پر دیا گیا ہے؟ دودھ کے ڈبے پر ٹیکس آئی ایم ایف کے دبائو پر لگایا گیا ہے تو پھر ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی میں چھوٹ ختم کرنے کا اعلان کرکے پھر یہ فیصلہ واپس کس کے کہنے پر لیا گیا؟ کیا کوئی لوئر مڈل کلاس کا شخص کروڑوں روپوں کی ہائبرڈ یا الیکٹرک گاڑیاں خرید سکتا ہے؟ تو پھر مراعات یافتہ طبقے کو یہ رعایت کیوں دی گئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم کشکول لیکر آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اپنے اخراجات گھٹائیں اور آمدن بڑھائیں تاکہ قرض واپس نہ بھی کر سکیں تو اس پر واجب الادا سود کی ادائیگی ممکن بنائی جا سکے۔ ہمارے بابو صاحبان بتاتے ہیں کہ ہم سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کر رہے ہیں، بجلی مہنگی کررہے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھا رہے ہیں، نئی اصلاحات لارہے ہیں، پیٹرول پر لیوی بڑھا رہے ہیں، جس سے محاصلات کا نظام بہتر ہو جائے گا۔ اخراجات کم کرنے کی بات ہو تو تعلیم، صحت اور ترقیاتی بجٹ کم کردیا جاتا ہے ۔آئی ایم ایف کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ حکومت کس قسم کے اخراجات کم کرتی ہے اور کس شعبہ سے کیسے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرتی ہے۔ مگر ہمارے مسیحا، ہمارے نجات دہندہ، ہمارے منتخب نمائندے آئی ایم ایف کو ولن بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ گالیوں اور لعن طعن کا رُخ اس طرف رہے۔