کمپنی کے جانشین

July 04, 2024

جوائنٹ اسٹاک کمپنی فقط ایک مقصد کے حصول کے لیے معرضِ وجود میں آ تی ہے، اور جب تک برقرار رہتی ہے اسی ایک مقصد کے تعاقب میں سرگرداں رہتی ہے، وہ مقصد ہوتا ہے اپنے شیئر ہولڈرز کی معاشی منفعت۔ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی اولین جوائنٹ اسٹاک کمپنی سمجھی جاتی ہے، جس کا ہدف آبادی کی فلاح، انصاف کی فراہمی یا برصغیر کے عوام کا مستقبل سنوارنا نہیں تھا بلکہ ہر قیمت پر اپنے حصہ داروں کو دولت کما کر دینا تھا، بنگال میں جنگ کے مارے ہوئے عوام جب قحط کا شکار ہوئے تب بھی کمپنی کے اہل کار ٹیکس میں اضافہ کر رہے تھے اور ٹیکس اکٹھا کرنے میں ظلم کی آخری سرحد تک جاتے تھے۔کمپنی کی لوٹ مار بڑھتی گئی، برصغیر کی دولت برطانیہ منتقل ہوتی گئی، اور ہندوستان کے عوام پِستے چلے گئے۔عوام کمپنی کی بربریت سے تڑپ رہے تھے، مگر کمپنی انہیں جواب دہ نہیں تھی، عوام کے غصے سے نپٹنے کے لیے کمپنی نے2لاکھ افراد پر مشتمل پرائیویٹ فوج تیار کر رکھی تھی، کمپنی صرف اور صرف اپنے شیئر ہولڈرز کو جواب دہ تھی، اور شیئر ہولڈرز کمپنی کی لوٹ مار سے خوش تھے کیوں کہ انہیں اس میں سے حصہ ملتا تھا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان بہ طور جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے رجسٹرڈ نہیں ہے، یہ ایک ملک ہے، جو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر ’رجسٹرڈ‘ ہے، مگر وہ کیا کہتے ہیں کہ ’’انداز ہو بہ ہو تری آوازِ پا کا تھا۔‘‘

بجٹ آیا تو جیسے یک بار ’’اُبل پڑے ہیں عذاب سارے‘‘، ہر طرف یہی باز گشت ہے کہ یہ بجٹ شیئر ہولڈرزکا بجٹ ہے، شیئر ہولڈرز نے بنایا ہے، اورشیئر ہولڈرز کے لیے بنایا ہے۔ دیوار سے لگے ہوئے عوام کو اب دیوار میں چننے کا عمل تیز تر کر دیا گیا ہے۔ہم نے ایک انوکھی ریاست کھڑی کی ہے جو غریبوں کے ہاتھ سے آخری سکّے چھین کر امیروں کی اتھاہ جیبیں بھرتی رہتی ہے، اس ملک کے تمام غریب ٹیکس دیتے ہیں، مزدور، ریڑھی والا، کوچوان، خاکروب، کسان۔پنکھا خریدتے ہیں تو ٹیکس دیتے ہیں پنکھا چلاتے ہیں تو ٹیکس دیتے ہیں، بلب خریدنے اور جلانے پر ٹیکس دیتے ہیں، پانی اور گیس پر ٹیکس دیتے ہیں، چائے، چینی، آٹا چاول، پٹرول ، ہر شے پر ٹیکس دیتے ہیں اور ریاست انہیں ’پیار‘ سے نان فائلر کہتی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو تو یہ ریاست اپنا یرغمالی سمجھتی ہے، یہ لوگ ریاست کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں، ہر سال ان کا ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے، ریاست کا بس نہیں چلتا کہ تن خواہ داروں کا ایک ایک گردہ ٹیکس کی مد میں نکال لے۔

دوسری طرف اُمرا ہیں، کمپنی کے شیئر ہولڈرز، جسے طاقت ور اشرافیہ کہا جاتاہے۔ انٹرنیشنل ادارے بتاتے ہیں کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4 بلین ڈالر کی سب سڈی لیتی ہے، یعنی ٹیکسوں میں چھوٹ اور مراعات۔طاقت ور لوگ خود ہی ہر بڑا کاروبار کرتے ہیں، اور خود ہی اپنا ٹیکس معاف کر دیتے ہیں، خود کو اربوں روپے کی سب سڈی بھی دے دیتے ہیں، کھاد، سیمنٹ سے چینی سیکٹر تک مثالیں ہی مثالیں ہیں، جم خانہ اور اسلام آباد کلب سے لے کر بیسیوں گالف کلب اور میس ہیں جواربوں روپے کی اراضی و تعمیرات پر کچھ سو روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کلبوں کے متمول ممبروں کو ہر چیز پر سب سڈی ملتی، اور اس اشرافیہ کو سب سڈی دینے کے لیے ریاست عوام پر اربوں روپے کے ٹیکس لگاتی ہے، اور کھربوںروپے کے اندرونی و بیرونی قرضے لیتی ہے تاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ورثاء کی عیاشیوں میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔

عوام کے لیے بجٹ میں کیا ہوتا ہے؟ وزیر خزانہ کے الفاظ سنیے،’’ یہ بجٹ ذرا مشکل ہے، ہم معیشت کے بنیادی امراض دور کر رہے ہیں جس کے بعد کچھ عرصے میں ثمرات عوام تک پہنچنے شروع ہو جائیں گے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے گا،‘‘ یہ الفاظ وزیرِ خزانہ شوکت عزیز کے ہیں جو انہوں نے 2003 میں بجٹ پیش کرتے ہوئے فرمائے تھے۔ موجودہ وزیرِ خزانہ اورنگ زیب صاحب کے ہاتھوں میں بھی جھاڑ پونچھ کر وہی اسکرپٹ تھما دیا گیا ہے، فرماتے ہیں ہم تاجروں پر ٹیکس لگانے اور حکومتی خرچے کم کرنے پر ’’غور‘‘ کر رہے ہیں۔ سنگ دلی کی انتہا ہو گئی۔بڑے زمین دار پر ٹیکس نہیں لگتا، بڑے تاجر پر ٹیکس نہیں لگتا، ایک دن میں لاکھوں روپے ’قانونی‘ طور پر کمانے والے ڈاکٹر پر ٹیکس نہیں لگتا، ٹیکس لگتا ہے بچوں کے دودھ پر، ٹیکس لگتا ہے سائیکل پر، یعنی معاشرے کے سب سے کم زور طبقات پر۔

ایک بجلی کے بل سے ہی اندازہ کر لیجیے کے یہ ریاست عوام سے کتنی ’’محبت‘‘ کرتی ہے، بجلی کے بل کے نام پر عوام کو ذبح کیا جا رہا ہے، لوگوں نے سولر بجلی بنانی شروع کی تو حکومت نے اس ضمن میں حوصلہ شکن پالیسیاں بنانا شروع کر دیں، کیوں کہ بجلی گھروں سے معاہدوں کی رو سے کپیسٹی چارجز تو ہر حال میں ادا کرنے ہیں۔ اوریہ بجلی گھر کن کے ہیں؟ کچھ غیر ملکیوں کے اور باقی ہمارے پیارے سیاست دانوں کے ۔ اور الیکٹرک گاڑیاں تو بنی ہی ہمارے جیسے ملکوں کے لیے ہیں جن کا سارا زرِ مبادلہ پٹرول کی درآمد پر خرچ ہو جاتا ہے، مگر ہم الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس بڑھاتے ہیں، ان کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

بات یہ ہے کہ بے رحم مافیاز اس ریاست کے سینے پر چڑھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی صورت اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ ریاست پھڑپھڑا رہی ہے، عوام تڑپ رہے ہیں، مگرسنگ دل کمپنی اس صورتِ حال سے یک سر بے نیاز صرف اور صرف اپنے شیئر ہولڈرز کے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے آخری حد تک آن پہنچی ہے...بنے گی اب ورقِ شب پہ کون سی تصویر، ستارے ڈوب چکے آسمان خالی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)