انسانی شخصیت پر اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات کی شرعی حیثیت

July 05, 2024

مولانا سیّد انور شاہ

(گزشتہ سے پیوستہ)

نام کاانسانی شخصیت پر اثر اور جدید سائنس

انسانی شخصیت پر اچھے اور برے ناموں کے اثرات کو جدید سائنس نے بھی تسلیم کیا ہے، چنانچہ ’’سنتِ نبوی اور جدید سائنس‘‘ میں ہے: ’’جدید سائنس نے اچھے ناموں کو پسند کیا ہے، ان کی پسند دراصل ناموں کے الفاظ اور پھر ان کےاثرات کی وجہ سے ہے۔ علم نفسیات کے ماہر پروفیسر پیرل ماسٹرنے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ نام زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، حتیٰ کہ نام کے الفاظ کا ترجمہ بھی اپنے فوائد اور اثرات بدل دیتا ہے۔‘‘ (سنتِ نبوی اور جدید سائنس:۱/۳۰۳)

ناموں کی نفسیات پر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہرِ نفسیات ڈیوڈزو کہتے ہیں کہ آپ کا نام، آپ کی شناخت سب سے اہم عنصر ہے اور اسی کی مدد سے لوگ آپ سے بات کرتے ہیں تو دوسروں کے ذہنوں میں آپ کی شبیہ بھی اسی کی وجہ سے بنتی ہے۔‘‘

سائنسی ماہرین نے ایک تحقیق پیش کی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی شخصیت اور ناموں کے درمیان تعلق محض انہیں ایک انفرادی پہچان دینے کی حد تک نہیں ہے، بلکہ اس کے اثرات زندگی بھر انسانی شخصیت پر مختلف انداز میں جاری رہتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین نے امریکہ اور کینیڈا میں سوشل سیکورٹی کا ریکارڈ جانچا، اندازے قائم کیے اورپھر اس مقصد کے لیے لوگوں کے نام، ان کی جائے پیدائش یا جائے رہائش، پیشہ اور دیگر عوامل کے بیچ ممکنہ تعلقات کو جاننے کی کوشش کی گئی۔ ماہرین نے اس مشاہدے میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ بہت سے لوگ ایسے پیشوں کا انتخاب بھی کرتے ہوئے پائے گئے، جن کا تعلق ان کے نام سے کسی حد تک قائم کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا احادیثِ طیبہ، مستندواقعات ، سائنسی تحقیقات اور دیگر معتبر تفصیلات سے واضح ہوا کہ اچھے ناموں کے اچھے اور برے ناموں کے ممکنہ برے نتائج پڑ سکتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ اس معاملے کی اہمیت اور حساسیت کو جان کر اپنے بچوں کے لیے بامعنی، اچھے اور دلکش ناموں کا انتخاب کریں۔

یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ ناموں میں یہ اثر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے، نام بذاتِ خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اس لیے اسے مؤثر بالذات سمجھنا ہرگز درست نہیں، نیز یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک پر ضرور بالضرور نام کے اثرات مرتب ہی ہوں گے، بلکہ ہو سکتا ہے کسی فرد پر نام کے اثرات مرتب نہ ہوں، لیکن عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ نام کے ممکنہ اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔

ناموں کے سلسلے میں ہماری کوتاہی اور غفلت

ناموں کے متعلق شریعت کی طرف سے اتنی زیادہ تاکید اور ترغیب وترہیب کے باوجود اس وقت مسلم معاشرہ غفلت، زبوں حالی اور جدت پسندی کا شکار ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات ہمارے ننھے منے، جان سے پیارے بچے بدقسمتی سے صحیح اسلامی ناموں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

بچوں کے نام اورجدّت پسندی کا تصور

آج کل لوگوں کا یہ مزاج بنتا جارہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو۔ ایسا نام رکھا جائے جو پڑوس، محلہ اور آس پاس کی آبادی اور اہلِ قرابت میں سے کسی کا نہ ہو ،خواہ اس کا معنی اور مفہوم کچھ بھی نکلتا ہو، چنانچہ بعض اوقات جدت پسندی کے جنون میں لوگ ایسے نئے نئے نام تجویز کرتے ہیں جو یا بےمعنی اور مہمل قسم کے ہوتے ہیں یا غلط معنیٰ کے حامل ہوتے ہیں۔

مولانامفتی محمد شفیع ؒمعارف القرآن میں رقم طراز ہیں: ’’کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑدیا ہے، ان کی صورت و سیرت سے پہلے بھی ان کا مسلمان سمجھنا مشکل تھا، ان کے نام سے پتاچل جاتا تھا، اب نئے انگریزی طرز کےنام رکھے جانے لگےہیں۔ ‘‘ (معارف القرآن: ۴/۱۳۲)

قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی شرعی حیثیت اور دلچسپ واقعہ

بعض سادہ لوح ناواقف مسلمانوں میں یہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کو خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس کا معنی اور مطلب کیا ہے؟

آیا یہ نام مناسب بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ ایک مسجد کے نمازی نے اپنی بچی کا نام ’’لِنتَ‘‘ رکھا۔ مسجد کے امام صاحب نے تبدیل کرنے کا کہا تو جواب ملا کہ بچی کی دادی کو دورانِ تلاوت یہ لفظ پسند آیا تھا، اس لیے رکھا ہے، لہٰذا دادی کی خوشی کی خاطر اس نام کو تبدیل نہیں کر سکتے۔مولانا مفتی مہربان علی بڑوتی صاحب ؒ نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ شہر مظفر نگر کے دیہات میں ایک عورت نے جو ذرا قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی، اس کے یہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

اس نے اپنے کو خواندہ سمجھتے ہوئے بچیوں کے نام تجویز کرنے کے لیے قرآن کریم سے ’’سورۂ کوثر‘‘ کا انتخاب کیا، چنانچہ بڑی بچی کا نام ’’کوثر‘‘ رکھا۔ دوسری کا نام ’’وانحر‘‘ تجویز کیا۔ اور تیسری کا نام ’’أبتر‘‘ مقرر کیا۔ کوثر اور وانحر کے معنی تو بہ حیثیتِ نام کسی حد تک درست بھی ہیں، لیکن آخری لفظ ’’ابتر‘‘ کا معنی توبالکل غلط ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ (مسلمانوں کے نام اور ان کے احکام:۱/۱۳)

ایسے لوگوں کو بطور اصلاح کچھ کہا جائے تو سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرنا کون سے مسئلے کی بات ہے، حالانکہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی بات علیٰ الاطلاق درست نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں حمار، کلب، خنزیر، بقرہ، فرعون، ہامان، قارون وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں، تو ان کے طریقِ استدلال کے مطابق ان الفاظ کے ذریعے بھی نام رکھنا صحیح ہونا چاہیے۔

نام اچھا ہونے کا معیار اور غیرشرعی نام رکھنے کا حکم

لہٰذا نام کے اچھا یا برا ہونے کا معیار یہ نہیں کہ وہ نام پسند آجائے یا وہ قرآن کریم میں مذکور ہو، بلکہ اچھا ہونے کا معیار یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں بھی وہ نام اچھا ہو۔ اسی طرح بعض لوگ اسلامی ہدایات کے برخلاف ناول، افسانوں، فلموں، ڈراموں اور دیگر غیر شرعی پروگراموں سے نام اخذ کر کے رکھتے ہیں، حالانکہ وہ نام یا تو فرضی ہوتے ہیں یا سراسر غیر اسلامی، بلکہ بسا اوقات اس میں مذاہبِ باطلہ کی آمیزش ہوتی ہے جو انتہائی افسوس کن اور قابلِ اصلاح امر ہے۔

یاد رکھئے! نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے ۔ نام کا انسان کی فطرت پر نفسانی اثر رہتا ہے۔ اچھے نام والا آدمی اپنے نام کا اچھا اثر محسوس کرتا ہے، چنانچہ جب اس سے پکارا جاتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جس کا نام اچھا نہیں ہوتا، وہ اپنے نفس کو جھنجھوڑتا رہتا ہے۔