ابلیس کی باتیں مت سنا کرو

July 16, 2024

آج کی کتھا لگ بھگ بیس برس پرانی ہے۔ کئی مرتبہ پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔ بار بار پڑھی جاتی رہی ہے۔ یہ کتھا بار بار اس لیے پڑھی جاتی رہی ہے کہ یہ واقعہ بار بار دہرایا جارہاہے۔ جو واقعہ بار بار دہرایا جائے وہ واقعہ گزرتے ہوئے سمے کے ساتھ بوڑھا نہیںہوتا۔ اگر آپ یہ کتھا پڑھ چکے ہیں، تو دوسری یا تیسری مرتبہ پڑھ لینے اور سن لینے میںکوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اس طرح ہوتا رہا ہے اور اسی طرحہوتا رہے گا۔ اگر آپ کو دن میں دس مرتبہ سننا پڑے کہ پاکستان قائد اعظم نے بنایا تھا، تو اس میںکوئی قباحت نہیںہے۔ کیاپاکستان قائد اعظم نے نہیںبنایا تھا؟ کیا پاکستان کسی ایرے غیرے نتھو خیرے نے بنایا تھا؟ آپ کو دن میںدس مرتبہ، بیس مرتبہ سننا پڑے گا کہ پاکستان قائد اعظم نے بنایاتھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ کئی مرتبہ پہلے پڑھی ہوئی کتھا آپ پھر سے پڑھ کر دیکھ لیں۔ آپ کو لگے گا کہ آپ آج کی کتھا پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں۔ کتھائیں ہوتی ہی اس مقصد کے لیے ہیں کہ جب بھی آپ کوئی کتھا پڑھیں، آپ محسوس کریںکہ یہ کتھا آپ پہلی مرتبہ سن رہے ہیں۔ اس کے درپردہ کوئی فلسفہ پنہاں نہیں ہے۔

سیدھی سی بات ہے۔ اگر ایک مرتبہ آپ کی سمجھ میں آجائے، تو پھر آپ کئی جھنجھٹوں سے آزاد ہوجائیںگے۔ آپ سچ اور جھوٹ کی کھینچا تانی سے مکتی حاصل کرلیںگے۔ آپ محسوس کریںگے کہ آپ کتھا میںجو کچھ سُن رہےہیں وہی سچ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سچ نہیں ہے۔ تو پھر پرانی کتھا سنیے جو کہ آپ بار بار سن چکےہیں۔ آپ محسوس کریںگے کہ پُرانی کتھا آپ زندگی میںپہلی مرتبہ سن رہے ہیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کتھا اگر آپ کو نئی محسوس نہ ہو، تو پھر آپ سے لی ہوئی رقم میںآپ کو سود سمیت واپس کردوںگا۔آج کی کتھا کاپسِمنظر ایک بھونچال کے بعد اجاگر ہونے والے حالات سے ہے۔ آپ بھونچال کا مطلب تو سمجھتے ہیںنا؟ بھونچال کا مطلب ہے زلزلہ۔ چونکہ اس کتھا کا براہِ راست تعلق کسی دوسرے عقیدہ سے ہے، اس لیے لامحالہ کتھا میںآپ کا واسطہ پرایے اور اوپرے یعنی غیرمانوس الفاظ سے پڑے گا۔ بیس برس کے لگ بھگ پُرانی کتھا ہے۔ بالا کوٹ میں آئے ہوئے بھونچال نے ہمالیہ کے چھوٹے بڑے سلسلوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہمالیہ صرف ہمارے ہاںنہیں ہوتا۔ کچھ کچھ ہمالیہ ہمارے ہاںہے۔ کچھ ہمالیہ چین میںہے۔ ہمالیہ کا کچھ حصّہ ہندوستان میںہے۔ اور ہمالیہ کا کچھ حصہ نیپال میںہے۔ انسان نے دانستہ اور نادانستہ طور پر بندربانٹ کر کے دنیا کو سینکڑوںممالک میںبانٹ دیاہے۔ کچھ ملک چھوٹے اور کچھ کمزور ہیں۔ کچھ ممالک بڑے اور طاقتور ہیں۔ طاقتور ممالک نے کمزور اور چھوٹے ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم کردی ہے۔ مگر قدرت کے اپنے اٹل قوانین ہیں۔ قدرت ممالک کے درمیان سرحدوں کو قبول نہیں کرتی ۔ قدرت کے نظام کو جاری اور ساری رہنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیںپڑتی. پاکستان پر منڈلانے والے بادل اجازت لیکر ہندوستان نہیںجاتے۔ برسات ویزا لیکر کہیں نہیں برستی۔ برسات ویزا لیکر فرانس کے بعد بلجیم پر نہیں برستی۔ پھیلنے والے وبائی امراض پاسپورٹ پر سفر نہیں کرتے۔ قدرتی آفات کسی مخصوص قوم اور عقیدہ کے لوگوں کو اپنا ہدف نہیںبناتیں۔ انسانی ذات کی تاریخ میںایک مثال نہیںملتی جس میںقدرتی آفات نے ایک عقیدہ، ایک ثقافت، ایک بولی، ایک رنگ، ایک نسل کے لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہو۔ بالاکوٹ پر آنے والے زلزلے نے ہندوستان اور پاکستان میںپہاڑوں کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ اسی لمحہ نیپال میں بھونچال نے بہت کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ دنیا بھر کے ممالک نے آفت زدہ علاقوں میںہر نوعیت کا امدادی سامان پہنچادیا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے پہاڑوں کے درمیان ایک جگہ خیموں کی بستی آباد ہوگئی تھی۔ تباہ حال ماحول میں رنگ برنگے خیموں نے موت اور زندگی کے ڈرامہ میںاُداس رنگینی کو سانس لینے کا سبق بنادیا تھا۔ ایک نیلے رنگ کے فرانسیسی خیمے میںچھ سات بچے مختلف ڈیزائنوں کے کمبل اوڑھے بیٹھے تھے۔ وہ آپس میںبھائی بہن اور رشتہ دار نہیں تھے۔ ہیبت ناک آفت نے ان کو درد کے رشتے میںجوڑدیا تھا۔ ان کے ماںباپ ، بھائی بہن مرگئے تھے۔

وہ حیران تھے کہ ان کے ساتھ اچانک یہ سب کیا ہوگیا تھا۔ کچھ دیر پہلے انہوںنے ایک سیانے سے سیانی باتیں سنی تھیں۔ سیانے سائیں نے ان کو بتایا تھا کہ جب معاشرہ بد اخلاق، بدکردار اور پاپی بن جاتاہے، تب قدرت ان کو سبق سکھانے کی ٹھان لیتی ہے، اور ان پر آفات نازل کرتی ہے۔ ڈر کے مارے بچے دبی دبی آواز میںایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ان کے والد کون تھے۔ وہ کیا کرتے تھے؟ ڈاکے ڈالتے تھے؟ لوٹ مار کرتے تھے؟ غلط کاری میںملوث تھے؟ قتل وغارت گری کرتے تھے؟ اگر وہ بہت برے لوگ تھے تو ان کی سزا ہم بچوںکو کیوں دی جارہی ہے؟دنیابھر کے سیانے اپنے جاسوس ہمارے درمیان چھوڑدیتے ہیں۔ بچوںکی باتیں سیانے سائیں تک پہنچنے میںدیرنہیںلگی ۔ کچھ دیر کے بعد سیانا سائیں بچوں کے پاس پہنچا ۔ بچے سیانے سائیں کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔ سیانے سائیں نے بچوں سے کہا۔ ’’کل رات تم لوگ جو باتیں کررہے تھے، وہ تم نہیںتھے۔ تمہارے وجو دمیںبیٹھا ہوا ابلیس تمہیں بہکا رہا تھا۔ ابلیس کی باتیں مت سنا کرو۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)