صرف دس ماہرڈاکٹر

March 25, 2014

پچھلے ہفتے کسی ملنے والے نے کہا کہ کسی بچوں کے نیوروفزیشن سے وقت لے دیں جس سے بھی رابطہ کیا انہوں نے لمبی تاریخ دی ہے۔ یہ بات تو ہمارے علم میں ایک عرصہ سے ہے کہ ملک میں نیوروفزیشن کی اشد کمی ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق پورے ملک میں صرف سو ماہرین اعصاب پٹھہ ہیں جبکہ اس ملک میں اعصابی اور پٹھوں کی بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ باہر کی دنیا میں بچوں کے اعصاب و پٹھے کی بیماریوں کے ماہرین اور بڑوں کے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی اب چائلڈ نیوروفزیشن آ چکے ہیں مگر ان کی تعداد صرف دس ہے۔ بچوں کے ماہر اعصاب و پٹھہ ڈاکٹر ملک نذیر کےبقول پاکستان کی آبادی میں 45 فیصد بچے ہیں۔ جبکہ بچوں کے یہ ماہرین پیدائش سے لے کر پندرہ برس تک کے بچوں کا علاج کرتے ہیں۔ یہ دس ڈاکٹر یقینی بات ہے کہ ملک کے دو تین بڑے شہروں مثلاً لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد وغیرہ میں ہیں۔ پیدائش کے وقت اگر بچے کو مناسب آکسیجن نہ ملے تو اس کے دماغ اور جسم کے مختلف اعضا پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور بچہ مستقل طور پر دماغی، ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہ مناسب آکسیجن، مناسب نرسنگ کیئر اور غیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ویسے تو حکومت پاکستان اور چاروں صوبوں کی حکومتیں بچوں کی تعلیم و تربیت اور صحت کے بارے میں بڑے خوبصورت اعلانات کرتی رہتی ہیں اور عملاً کیا ہے؟ آج بچوں کی ہر بیماری کے اسپیشلسٹ کی بے حدکمی ہے جس کی بنا پر بچوں کی شرح اموات، جسمانی و دماغی معذوری اور دیگر بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت تھرپارکر اور چولستان میں جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ صرف اور صرف کمزور قوم کو جنم دے رہے ہیں۔ غذائی کمی کا شکار یہ بچے بڑے ہو کر سوائے بیماریوں کے گھر کے اور کیا ہوں گے؟ معروف ماہر امراض دل پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور کے بقول بچوں کا کون سا شعبہ ہے جہاں پر بچوں کے ڈاکٹر بین الاقوامی معیار اور ضرورت کے مطابق ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ بچوں کی مختلف بیماریوں مثلاً ہارٹ، نیوروجیکل، آرتھوپیڈک، بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کے ہمارے ملک میں ڈاکٹر کیوں نہیں آ رہے؟ اس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے بچے تو باہر کے ممالک میں علاج کراتے ہیں اور غریب لوگوں کے لئے سرکاری اسپتال ہیں۔ جہاں پر نہ کوئی سہولت ہے نہ سامان ہے، نہ ڈاکٹرز ہیں۔ کیا ایلیٹ کلاس اور حکمران اپنے بچوں کی ڈلیوری لیڈی ایچیسن اسپتال، لیڈی ولنگڈن اسپتال، جانکی دیوی اسپتال، جنرل اور سروسز اسپتال میں کرانا پسند کریں گے؟ کتنے ممبران اسمبلی نے اپنے بچوں کی اور آگے اپنے بچوں کے بچوں کی پیدائش سرکاری اسپتالوں میں کرائی ہے؟ جناب شہباز شریف صاحب آپ کے اندر قوم کا بہت درد ہے آپ صرف پنجاب اسمبلی کے ان معزز اراکین کے ناموں کا اعلان فرمائیں جنہوں نے اپنے بچوں کی ڈلیوری سرکاری اسپتالوں میں کرائی۔
بچوں کی بیماریوں کی ایک علیحدہ میڈیکل سائنس ہے۔ بچوں کے ڈاکٹروں کے لئے یہاں کیا اسکوپ ہے؟ آپ دیکھیں لیں کہ چلڈرن اسپتال میں اس وقت کیا حالات ہیں۔ ایک جم غفیر بچوں کا چلا آرہا ہے۔ اس وقت پورے پنجاب میں 30 ہزار بیڈز سرکاری ہسپتالوں میں ہیں اور نرسیں صرف بارہ ہزار ہیں ان حالات میں کیسے صحت کا سسٹم بہتر ہو سکتا ہے پھر تو معذور اور جسمانی بیمار بچے ہی پیدا ہوں گے۔ بچے کو ماں کے پیٹ کے اندر کسی وجہ سے مناسب مقدار میں آکسیجن نہ ملے ، دوران ڈلیوری کوئی مسئلہ ہو جائے تو ان حالات میں بچوں کو کوئی بھی دماغی مسئلہ پیش آ سکتا ہے۔ چھوٹے شہروں، ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں حالات بہت خراب ہیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کی غفلت کے باعث ایسے بچے پیدا ہو رہے ہیں جن کو مختلف اعصابی، دماغی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔
ہماری حکومت اوران کے مشیران کرام بھی بڑے کمال کے لوگ ہیں جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو شور مچانا شروع کردیتے ہیں بیماری کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کرتے، کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ اب آپ تھرپاکر اور چولستان کو ہی دیکھ لیں وہ اعلیٰ افسران جنہیں بیوروکریسی کہاجاتا ہے جن کے طور طریقے آج بھی انگریزوں جیسے ہیں۔ انہوں نے صدر، وزیر اعظم کو خبر ہی نہیں ہونے دی کہ تھرپارکر میں لوگ بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ پہلے مور مرے اور اب انسان۔ لوگوں کو پانچ پانچ لاکھ دے کر آپ کیا کریں گے۔ جہاں نہ پانی نہ خوراک نہ علاج وہاں پر وہ پانچ پانچ لاکھ لے کر کیا کریں گے۔ وہ سرزمین جس کے نیچے اربوں روپے کا کوئلہ دفن ہے اور وہاں لوگ خود کوئلہ بن گئے مگر کسی کو ترس نہیںآیا ۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی بے حسی دیکھیں کہ گندم تقسیم کرنے گئے اور ناراض ہوکر آگئے۔ ان کے قدموں پر ایک معذور شخص گر پڑااور سکیورٹی والوں نے اس کی پٹائی کردی۔ لوگوں کی آہوں، سسکیوں اور بددعائوں نے بھی قائم علی شاہ کے دل کو موم نہ کیا۔ تھرپارکر اور چولستان میں جو بچے پیدا ہورہے ہیں وہ لاغر اور بیماریوں کا گھر ہیں۔ حکمران طبقہ ایک ایسی نسل تیار کر رہا ہے جو مستقبل میں اس ملک کی معیشت پر بوجھ بن جائے گی۔ ان لوگوں کے لئے ابھی سے کوئی پلاننگ کریں تاکہ ان کی نسلیں بچ سکیں۔ تھرپارکر کا مسئلہ مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ تھرپار کر میں ڈاکٹروں کو لازمی ڈیوٹی کرنی پڑے گی۔ دوسری طرف صرف کراچی میں دوبرس میں 130 ڈاکٹرز قتل ہو چکے ہیں۔ کیا سندھ حکومت نے اس پر کچھ سوچا؟ 150 اغوا ہو چکے ہیں۔ ابھی کتنے اور ڈاکٹرز قتل کرانے ہیں؟ کتنے اغوا کرانے ہیں؟ سندھ حکومت کی بے حسی کی یہ انتہا ہے اور دوسری طرف تھرپارکر کے بے کس لوگوں کی بے بسی۔ روز قیامت بارے میں کیا جواب دیںگے؟
لاہور میں صرف تین بچوں کے اعصاب کے ماہرین ہیں۔ ملک کے دوسرے شہروں کی کیا صورت ہوگی؟ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال ایک بلین لوگ نیوروجیکل بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جس میں سے 8.6 ملین لوگ ہر سال اعصابی بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ہر ایک گھنٹے میں 50 لوگوں میں اعصابی بیماریوں کی تشخیص ہوتی ہے۔ 2لاکھ بچوں کو دماغی اعصابی بیماریوں سے سرطان ہو جاتا ہے ۔ پاکستان میں آج ہر بیماری کے ڈاکٹروں کی کمی ہوتی جا رہی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں کوئی ڈاکٹر پاکستان میں کام کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت مختلف باڈیز بنا کر ڈاکٹروں اور نرسوں کو پریشان تو ضرور کرر ہی ہے مگر ان کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے کوئی لانگ ٹرم پالیسی نہیں۔ بچوں میں مرگی کی بیماری عام ہے۔ اس طرح SETEREVBAL ہے۔ پاکستان میں پچاس فیصد بچے جو اعصابی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں وہ گردن توڑ بخار، دماغ پر چوٹ لگنے سے یا موروثی جبکہ 50 فیصد کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ یہ ہماری غفلت اور نااہلی ہے صحت مند بچے معذوری کی طرف دھکیل دیئے جاتے ہیں جس پرہمارے حکمران صرف افسوس کرتے ہیں اور سیاسی بیان بازی کرتے ہیں۔
غم ہجراں کا یا رب کس زبان سے ماجرا کہئے
نہ کہئے گر تو کیا کہئے اگر کہئے تو کیا کہئے