سیدنا امام حسینؓ سے محبت جزو ایمان ہے

July 26, 2024

حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
سبط رسول ، جگر گوشہ فاطمہ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نوجوانان جنت کے سردار سے محبت کی ایک وجہ ہی اہل ایمان کیلئے کافی ہے کہ حسینؓ کی محبت سے اللہ اور رسولﷺ کی محبت میسر ہوتی ہے اور یہ محبت چھن جانے سے کملی والے کی محبت بھی چھن جاتی ہے۔ کیا حسینؓ سے محبت کی یہ وجہ کافی نہیں کہ حسینؓ اس سینے کا سرور ہے جس سینے سے نکلی ہر سانس ہمیں جان سے بڑھ کر محبوب ہے،حسینؓ ان آنکھوں کا نور ہے،جن آنکھوں نے مجھے دیکھے بغیر مجھ ایسے گنہگار امتی کے لیے ہر رات آنسو بہائے ہیں،حسینؓ ان لبوں کے بوسوں کا امین ہے،جن گلاب لبوں نے میری کائنات میں ایمان بھرا ہے اور جن لبوں سے پھوٹتے حرف شفاعت کی ساری کائنات محتاج ہے اور جن لبوں کے ذریعے رب نے ہمیں قرآن دینا پسند فرمایا، یہ تو خدائی امور میں سے ہے، اللہ نے چاہا کہ انسانیت کا عظیم ترین شخص مدینے کا ایک یتیم ہو اور حسینؓ اس عظیم ترین شخص کا نواسہ ہو، اس طرح تو کل کوئی پوچھے گا، نبی کریم ﷺ کو سردار انبیا کر دیا گیا، آخر ان کی اضافی خدمات کیا ہیں، کل کوئی کہے کہ فلاں شخص کی دین کے لیے محنت فلاں صحابی سے بڑھ کر ہے، کل کوئی کہے، دین میں محنت تو ہمارے عہد کی فلاں خاتون کی زیادہ ہے،سیدہ عائشہ کا مقام ایسا ارفع و اعلی کیسے ہوگیا، کل کوئی یہ کہہ ڈالے کہ جتنی احادیث امام بخاری نے لکھی ہیں اتنی تو کسی ایک صحابی کو اکیلے یاد نہ تھیں، پھر حدیث میں مقام ابوہریرہؓ کا زیادہ کیسے ہوگیا، بات یہ ہے کہ فضیلت کبھی زمانے میں ہوتی ہے،کبھی شخصیت میں ہوتی ہے اور کبھی کسی جگہ میں ہوتی ہے، خوب سمجھ لیجیے کہ یہ طریقہ یہود کا ہے،انھوں نے اللہ کے انتخاب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ اللہ نے بنی اسحاق کی بجائے،بنی اسماعیل کو کیوں نواز دیا، کیا بگڑا، خود وہ آخری نبی ﷺ کی عظمت بھری چھاؤں میں آنے سے محروم رہے۔یہ طریقہ ابو جہل کا ہے، کہنے لگا، قرآن ہی اترنا تھا تو بستی کے دو بلند تر لوگوں پر کیوں نہ اتر آیا، مدینے کے ایک یتیم، عبداللہ کے بیٹے پر کیوں اتر آیا، اے بھائی یہ اللہ کا انتخاب ہوتا ہے،اسے آپ خدائی اور آسمانی میرٹ کہہ لیجیے۔کسے کب کیسے اور کتنا نوازنا ہے، یہ فیصلے مخلوق کے نہیں خالق کے ہوتے ہیں،جیسا کہ اللہ نے قرآن میں جواب دیا، اپنی رحمت نبوت گویا ہم تم سے پوچھ کے کسی کو عطا کرتے،جب کہ اس سے کہیں کم تر نعمت معیشت تو ہم نے اپنی مرضی سےمنقسم فرمائی ہے تو گویا نبوت تمھاری مرضی سے دینی چاہئے تھی۔(الزخرف 32) کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی (بھی) ہم نے ہی تقسیم کی ہے اور ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندکیا ہے تاکہ ان میں ایک دوسرے کو اپنا خادم بنائے اور تمہارے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کررہے ہیں ۔ جس طرح بعد والے قرآن و حدیث کے شارح و مفسر ایک ایسے صحابی سے برتر تو کیا اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتے جس نے صرف رسولﷺ کو دیکھا، کلمہ پڑھا اور جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔یہاں میزان فضیلت کام نہیں، نبیﷺ کے چہرے کی ایمان بھری زیارت نصیب ہو جانا میزان ہے۔ صرف صحابی ہوجانا ہی اتنا اہم ہے کہ ساری زندگی اسلام کیلئے ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے والا کوئی مرد مجاہد بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا، جس طرح نبیﷺ کی محض بیوی ہوجانا اتنا بڑا اعزاز ہےجو کسی صورت کسی خاتون کو نہیں مل سکتا۔ جیسے نبی کی بیٹی ہو جانا وہ اعزاز ہے،جو کسی بھی محنت سے کبھی کسی کو نہیں مل سکتا، یہ ایسی ہی بات ہے کہ ان نسبتوں سے ملنے والا ہر اعزاز منفرد و یکتا ہے، بے مثل بے مثال ہے،ابدلآباد تک لازوال ہے۔سیدنا ابوہریرہ سرتاج حدیث رسول ،ایک دن سیدنا حسین کے پاؤں سے مٹی صاف کرتے دیکھے گئے۔ پوچھنا ہے تو جا کے ابوہریرہ سے پوچھو،حسین کی اسلام کیلئے کیا خدمات ہیں، ایک دن انھوں نے حسن سے درخواست کی،قمیص اٹھائی گئی اور انھوں نے وہاں سے چوما، جہاں سے رسول چومتے تھے۔ عمر فاروقؓ جیسا شخص دنیا جسے انسانیت کی سو عظیم ترین شخصیات میں شمار کرتی ہے،اپنے بیٹے کو بتاتے ہیں، بیٹا حسینؓ کے نانا جیسا کسی کا نانا نہیں، ان کے باپ جیسا کسی کا باپ نہیں اور ان کی والدہ جیسی کسی کی والدہ نہیں۔ وہ سارے صحابہ جن پر اللہ نے اسلام کی بنیاد ڈالنے کی ذمہ داری ڈالی وہ حسینؓ سے پیار کرتے ہیں،جاؤ ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔دراصل انھوں نے دین سمجھا تھا، رسولﷺ سے محبت سیکھی تھی اور انھیں کرشمہ ساز نسبتوں کی تفہیم بھی خوب تھی اور ان کی لاج رکھنا بھی آتی تھی۔ حجرہ عائشہؓ سے منبر رسول تک کا قطعہ جنت نظیر کیوں ہوا، نسبت نبیﷺ کی وجہ سے۔ کیسا احمق اور بد بخت امتی ہے وہ جو جہاں بھر کی نسبتوں کا پاس کرے اور نبیﷺ سے اس کے نواسے کی نسبت کا حساب لینے جا پہنچے،جس نبی نے بطور امتی اپنی نسبت سے ہمیں امتوں میں سرفراز کیا۔ وہ اسی سرفراز کردینے والے نبی سے اس کے نواسے کی نسبت پر سوال کرنے اٹھ کھڑا ہو، اللہ کے اے بندے! تمھیں معلوم بھی ہے کہ جو نسبت خاک کو افلاک کر دے،اس طلسمی نسبت سے ایمان بھرا خون کا رشتہ ہو جانے کا مطلب کیا ہے، تم کسی عام آدمی سے ہاتھ ملا کے زندگی بھر فخر کرو اور اس حسینؓ پر اعتراض کرو جس کو دیکھ کے نبیﷺ جیتے تھے۔ کل عالم چہرہ رسولﷺ دیکھنے کو تڑپے اور چہرہ رسولﷺ کو حسینؓ کی زیارت سے قرار ملے۔ جس چہرے کو نبی ﷺ اپنے باغ کا پھول کہیں جس چہرے کیلئے نبیﷺ مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ ادھورا چھوڑ دیں، اس حسینؓ کی محبت ہمارے ایمان کا جزو کیوں نہ ہو۔