بلوچستان : کون کیا کر رہا ہے ؟

March 28, 2014

بلوچستان میں بلوچ و پشتون قوم پرستوں اور مسلم لیگ ن و ق کے اعتدال پسندوں کی مخلوط حکومت قائم ہونے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ مزاحمتی قوتوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں تیز ہو جائیں گی مگر اس سمت میں ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاگیا۔ اس کے برخلاف اندرون صوبہ پاکستان سے علیحدگی کے لئے برسرپیکار مسلح تنظیموں کی کارروائیوں اور بیرون ملک انسانی حقوق کے اداروں اور غیر ملکی پارلیمانی وسفارتی نمائندوں سے ان کے لیڈروں کے سیاسی رابطوں میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ ’’ناراض بلوچ‘‘ قیادت تک رسائی کے لئے سلسلہ جنبانی ہو رہی ہے مگر اس عمل میں مزید دوڈھائی ماہ لگ سکتے ہیں۔ جن بلوچ قائدین سے مذاکرات سود مند ہو سکتے ہیں اس وقت وہ تقریباً سب کے سب بیرونی ملکوں میں مقیم ہیں اور بلوچستان کی’’ آزادی‘‘ کے لئے مہم چلارہے ہیں۔ ان میں سابق ریاست قلات کے موجودہ ’’گدی نشین‘‘ میرسلیمان دائود بھی شامل ہیں۔ وہ قائداعظم کے منہ بولے بیٹے میر احمد یار خان کے پوتے ہیں جو ستمبر1933سے مارچ1948میں پاکستان سے الحاق کے اعلان تک بلوچوں کی نیم خودمختار لیکن بلوچ وحدت کی علامت ریاست قلات کے خان اعظم یا بادشاہ تھے۔ وہ قلات پر حکمرانی کرنے والے احمد زئی خاندان کے آخری فرمانروا تھے۔ بھٹو دور میں کچھ عرصہ تک بلوچستان کے گورنر بھی رہے، الحاق کے فیصلے کے بعد ان کا خان آف قلات کا ٹائیٹل تو ختم ہو گیا مگر بلوچوں میں وہ خان کے باعزت خطاب سے ہی پکارے جاتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے میردائود جان کی بھی خان قلات کے طور پر دستار بندی کی گئی اور اب ان کے پوتے میرسلیمان دائود کو بھی خان قلات ہی سمجھا جاتا ہے۔ میردائود جان نرم خو اورصلح جو شخص تھے۔ انہوں نے وفاق کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا مگر سلیمان دائودتیز طبیعت کے آدمی ہیں۔ ’آزاد بلوچستان‘ کی تحریک چلانے کے لئے انہوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور لندن میں مقیم ہیں۔ ریاست سے لڑنے کے لئے ان کے نام سے کوئی باقاعدہ لشکر یا تنظیم موجود نہیں لیکن ان کی تمام زبانی اور عملی ہمدردیاں علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ ہیں۔
عسکریت پسندانہ کارروائیوں کے اعتبار سے بلوچ لبریشن آرمیّ (بی ایل اے)سب سے پرانی، مضبوط اور فعال تنظیم ہے۔ اس کا دائرہ عمل بعض دوسری تنظیموں کی طرح پورے بلوچستان پر محیط ہے۔ اس کے سربراہ حیربیار مری لندن میں سیاسی پناہ گزین ہیں۔ وہ ناموربلوچ قوم پرست لیڈر نواب خیربخش مری کے صاحبزادے ہیں جو عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر کراچی میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ علیحدگی پسند انہیں اپنا نظریاتی رہبر قراردیتے ہیں۔حیربیار مری بلوچستان کے وزیرداخلہ بھی رہے ہیں اس لئے صوبے میں سکیورٹی کے کمزور پہلوئوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بی ایل اے ان کے تجربات اور رہنمائی سے خوب فائدہ اٹھارہی ہے، ان کے ایک بھائی بالاچ مری بھی مزاحمتی تحریک کے رہنما تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں کابل میں قتل کرادیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیربیار کے بڑے بھائی جنگیز مری جو نواب خیربخش کے متوقع جانشین بھی ہیں وزیراعظم نوازشریف کے قابل اعتماد ساتھی اور مسلم لیگ ن کے مرکزی سینئر نائب صدر ہیں۔ ایک اور بھائی گزین مری بھی مسلم لیگ ن میں ہیں۔ وہ صوبے کے وزیرجیل خانہ جات رہ چکے ہیں۔ مری قبیلے کی ایک اہم شخصیت مہران مری جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم اور یورپی یونین میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے نمائندہ ہیں۔ جنگجو مری قبائل کی مزاحمتی تحریک کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی شہادت سے غیر معمولی تقویت ملی۔ اکبر بگٹی آخری دنوں میں ڈیرہ بگٹی سے بالاچ مری کے مشورے پرہی مری علاقے میں منتقل ہوگئے تھے جہاں تراتانی کے غار میں ان کی موت واقع ہوئی۔ ان کے پوتے براہمدغ بگٹی جو ریحان بگٹی مرحوم کے بیٹے ہیں بلوچ ری پبلکن آرمی(بی آر اے)اور بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اس طرح عسکری اور سیاسی دونوں محاذ انہوں نے سنبھال رکھے ہیں۔ وہ سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں اور بلوچستان میں ان کے ترجمان شیر محمد بگٹی ہیں۔ بی آر اے کی سرگرمیوں کا مرکززیادہ تر ڈیرہ بگٹی اور اس سے ملحقہ بلوچ اضلاع ہیں۔ اب انہوں نے سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں بھی اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ براہمدغ بگٹی کو نواب اکبر بگٹی نے اپنی زندگی میں قبیلے کا نواب مقرر کر دیا تھا مگر ڈیرہ بگٹی پر شہید نواب صاحب کے سب سے بڑے بیٹے سلیم بگٹی کے صاحبزادے عالی بگٹی کا تسلط ہے۔ وہ بھی نواب ہونے کے دعویدار ہیں اور مبینہ طور پر انہیں حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ کوئٹہ کے بگٹی ہائوس میں مقیم ان کے چچا طلال بگٹی کو بھی ایک طبقہ نواب تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح بگٹیوں کے اس وقت تین نواب ہیں۔ ایک چوتھا طبقہ بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ بگٹی قبائل کی ذیلی شاخوں یا طائفوں نے ڈیرہ بگٹی میںہونے والے اجتماع میں سرداری نظام منسوخ کر دیا تھا اس لئے بگٹیوں کا اب کوئی نواب نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس اجتماع کا انتظام پرویزمشرف نے کیا تھا لیکن بعد میں خود ہی میرعالی بگٹی کو نواب تسلیم کر لیا۔ قبیلے میں ہونے والی رسہ کشی کے باعث وہ زیادہ تر سانگھڑ میں رہتے ہیں جہاں ان کی آبائی زمینیں ہیں۔
مزاحمت کاری کے حوالے سے ایک اور بڑی تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) ہے جس کی سرگرمیوں کا دائرہ بنیادی طور پر تربت کیچ پنجگور خضدار اور لس بیلہ تک پھیلا ہوا ہے۔ کیچ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا حلقہ انتخاب ہے جو اس تنظیم کے سرمچاروں کی زد میں ہے۔ بی ایل اے اور بی آراے کی قیادت مری اور بگٹی قبائل کے سردار خیل طبقے کے ہاتھوںمیں ہے جبکہ بی ایل ایف متوسط طبقے کے جنگجوئوں پر مشتمل ہے۔ اس کے لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر کا تعلق بھی ایک عام متوسط گھرانے سے ہے۔ وہ ملک سے باہر نہیں گئے۔ بلوچستان کے اندر رہ کر عسکری کارروائیوں کو منظم کر رہے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ستر سے زائدقبائلی سردار ہیں جن میں سے صرف مری بگٹی اور مینگل پاکستان کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں لیکن مینگل سردار موجودہ تحریک سے ہمدردی تو رکھتے ہیں مگر ان کا اس میںکوئی عملی کردار نہیں البتہ سردار اخترمینگل کے بھائی جاوید مینگل نے اپنے طور پر عسکری تنظیم لشکر بلوچستان قائم کر رکھی ہےجو عملی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے خود بیرون ملک سیاسی پناہ لے رکھی ہے۔ جاوید مینگل بی ایل اے کے قائد حیربیارمری کے بہنوئی بھی ہیں۔ ایک اور شخصیت میر نورالدین مینگل بھی جنیوا میں علیحدگی پسندوں کے ترجمان ہیں۔ مجموعی طور پر عسکریت پسندوں کی تقریباً تین درجن چھوٹی بڑی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں مگر طالبان کی طرز پر مذاکرات کے لئے انہی بڑی تنظیموں کے رہنمائوں سے رابطے نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ ان لیڈروں اور مخلوط صوبائی حکومت کے رہنمائوں کے کئی مشترکہ دوست، برطانیہ،سوئٹزرلینڈ،مسقط اور دبئی میں موجودہیں جو ان میں باہمی رابطہ بحال کراسکتے ہیں۔