سندھ اسمبلی کی ’’تحلیل‘‘ایک خواہش

April 20, 2014

حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب ملک کے ایسے مقبول سیاستدان ہیں جن کی ایک آواز پر کراچی تا پختونخوا مدرسوں کے لاکھوں طالب علم کسی بھی جگہ مجتمع ہو کر حکومتی ایوانوں کے در و بام ہلا سکتے ہیں۔ مولانا محترم سے متعلق سیاسی مفکرین کا اجماع ہے کہ آپ جدید بالخصوص ہر آہنگ، رنگ بدلتی پاکستانی سیاست کے ایسے ماہر ہیں کہ بڑے سے بڑا بقراط بھی آپ کے سامنے پانی بھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ آپ ہی کی کرشمہ ساز شخصیت کا کمالِ بے مثال ہے کہ آپ نے نوخیز و کمسن طالب علموں کی قوت کو اسٹریٹ پاور کے سانچے میں ڈھالا، جن کے طفیل آسمانِ سیاست نے بوریا نشینوں کو تخت نشین ہوتے دیکھا۔ اسلام (اسلام آباد نہیں) سے اسی مبنی براخلاص عشق کا تقاضا ہے کہ آپ مدارس کے خلاف کسی بھی ’’سازش‘‘ پر لمحہ بھر تاخیر کئے بغیر میدان کارزار میں آ پہنچتے ہیں۔ یہ یوں بھی مبنی عقل اور عین مطابق شریعت ہے کہ اگر اس ملک میں جرنیل سے لے کر جج و جرنلٹس تک ہر کوئی اپنی قوت کو خطرے میں پاتے ہوئے لرزہ براندام ہوجاتا ہے، تو آپ اپنے مسلک کے مدرسوں کی قوت سلب ہوتے کس طرح دیکھ سکتے ہیں!؟یہ امر البتہ تحقیق طلب ہے کہ دوسرے مسالک کے طالب علم اپنے مدرسوں کی حدود سے باہر نکلنا کیوں ضروری خیال نہیں کرتے۔بہر کیف حضرت کے مدرسوں کے طالب علم جب اپنے اکابر کی قیادت میں سیاسی اجتماعات کا حسن دوبالا کرتے ہیں تو یہ اس تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ مدرسوں میں صرف ملّا و مجاہد تیار ہوتے ہیں سیاسی کارکن نہیں۔ جماعت اسلامی کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے لیکن ان کے ’’مدرسوں‘‘ میں دینی مکتب فکر کا طالب علم داخلے کے لئے جاتا ہی نہیں … ہاں جماعت اسلامی والے عقلمند ضرور ہیں کہ وہ دوسروں کے مدرسوں کے طالب علموں کو اپنے بینر و پوسٹرز پکڑوا دیتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کے جلسوں میں طالب علموں کو اسامہ بن لادن کی قدآور تصاویر تھما دی تھیں!! خیر، ہم ذکر حضرت کا کر رہے تھے کہ وہ تحفظ پاکستان بل کے سب سے زیادہ مخالف ہیں اور جو سب سے توانا دلیل انہوں نے دی ہے اور جس سے ان کا سیاسی قد درپردہ اس بل کی حمایت کرنے والے نام نہاد جمہویت نوازوں سے کہیں زیادہ اور مزید بلند و پروقار ہوگیا ہے، وہ یہ کہ ایک اخباری بیان میں انہوں نے تحفظ پاکستان بل کے حوالے سے کہا ہے ’’حکومت وطن عزیز میں وہ قوانین لا رہی ہے جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کر رکھے ہیں، حالانکہ بھارت میں بھی شک کی بنیاد پر گرفتاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن پاکستان میں اس بل کے تحت ایسا جائز قرار دیا گیا ہے، جے یو آئی ایسے کالے قوانین کو قبول نہیں کرے گی‘‘ یعنی بھارت نے تو صرف مقبوضہ علاقے میں یہ کالا قانون نافذ کر رکھا ہے اور مسلم لیگی حکومت پورے پاکستان کو ’’مقبوضہ‘‘ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اسی بیان میں مولانا محترم نے سندھ اسمبلی کی تحلیل کی بات بھی کی ہے، جسے بہرصورت جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت کا کہنا ہے ’’اسلامی نظریاتی کونسل ختم کرنے سے متعلق سندھ اسمبلی کی قرارداد نظریہ پاکستان کے خلاف ہے لہٰذا ایسی قرارداد پاس کرنے والی اسمبلی کو تحلیل کردینا چاہئے‘‘۔ اب نظریہ پاکستان سے متعلق شیخ الہند اور اکابر علمائے دیوبند کا موقف کیا تھا، ہم طالب علم اس بحث کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہاں کونسل سے متعلق پیپلزپارٹی کا موقف محترم جناب ضیاء کھوکھر نے ارسال کیا ہے وہ کچھ یوں ہے’’اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے اخباری بیانات اور کونسل کی مجوزہ سفارشات مذہب کے نام پر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ نابالغ بچوں کی شادی کی اجازت دینا اور دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی سے تحریری اجازت کو غیراسلامی قرار دینا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ ایک خبر کے مطابق امتحانی بورڈز کے قواعد و ضوابط کے مطابق 13سال سے کم عمر بچہ یا بچی نویں جماعت کا امتحان نہیں دے سکتے مگر اس کے برعکس نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق 13سال کے بچے، بچی کی شادی پر کوئی قدغن لگانا غیر اسلامی ہے۔ نظریاتی کونسل کے اخباری بیانات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ نام نہاد کونسل فرسودہ قوانین اور جہالت پر مبنی رسم و رواج کواسلام کے نام پر نافذ کرانا چاہتی ہے۔ کونسل پہلے ہی تمام قوانین کا جائزہ لے چکی ہے اور اپنی 2008ء کی خصوصی رپورٹ میں نابالغ بچوں کی شادی کی ممانعت اور مسلم عائلی قوانین سمیت تمام موجودہ رائج قوانین کی 90فیصد تعداد کے بارے میں تسلیم کر چکی ہے کہ یہ اسلام کے منافی نہیں ہیں لہٰذا اب نظریاتی کونسل اپنی پہلی رپورٹ کو کیسے تبدیل کر سکتی ہے؟ اور اس رپورٹ کے متضاد موقف کیسے اختیار کر سکتی ہے؟ 2008ء کی رپورٹ کو پسِ پشت ڈال کر نظریاتی کونسل نے مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنے تازہ ترین بیانات، سفارشات کے ذریعے طالبان کے جن نظریات کی حمایت شروع کردی ہے، اس سے معاشرہ میں مذہبی انتہا پسندی کو عروج حاصل ہوگا۔ نظریاتی کونسل اپنے آئینی فرائض سے انحراف کرتے ہوئے جاہلانہ اور غیر اسلامی رسم و رواج پاکستانی قوم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ مئی میں کونسل نے اعلان کیا تھا کہ زنا کے کیسوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو ابتدائی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ پوری دنیا کی عدالتوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو قابل قبول شہادت تسلیم کیا جاچکا ہے۔ مزید برآں پاکستانی سپریم کورٹ بھی ڈی این اے ٹیسٹ کو قابل قبول عدالتی شہادت قرار دے چکی ہے۔ گزشتہ ستمبر میں کونسل نے ایک قرارداد کے ڈرافٹ کی منظوری دی تھی۔ اس قرارداد کے ذریعے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کو سزا دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی مگر بعدازاں اس قرارداد کے منظور شدہ ڈرافٹ کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر گلدستہ طاق نسیاں بنا دیا گیا۔ ماضی میں کونسل نے ’’اولڈ پرسنز ہوم‘‘ قائم کرنے کے مجوزہ بل کو موجودہ سماجی اور معاشرتی روایات کے منافی قرار دے کر اس کی مخالفت کی تھی۔
کونسل نے ’’وومن پروٹیکشن بل‘‘ کو بھی قرآن و سنت کی روح کے منافی قرار دیا تھا۔ 1973ء کے آئین کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے نظریاتی کونسل 1997ء میں اپنی فائنل رپورٹ پیش کر چکی ہے اس لئے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے آئینی فرائض مکمل کرنے کے بعد اس کونسل کو قائم رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اب اس کی کیا آئینی اور قانونی حیثیت ہے؟ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ وسائل اس ادارے پر کیوں خرچ کئے جا رہے ہیں؟ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن اس کے غیر منطقی بیانات سے عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے اور ان بیانات اور سفارشات سے عوام ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں‘‘۔
چلتے چلتے برسبیل تذکرہ کہتے چلیں کہ مولانا صاحب کی خواہش کے مطابق سندھ اسمبلی اگر تحلیل بھی کر دی جاتی ہے تو پھر بھی تو پیپلز پارٹی ہی جیت کر آ جائے گی، جے یو آئی تو آنے سے رہی لہٰذا کیوں نہ دعوت و تبلیغ کے ذریعےاسلامی انقلاب برپا کرنے کیلئے پہلے اصلاح معاشرہ پر توجہ دی جائے۔