اگلے بائیس ماہ :کارکردگی کا مقابلہ

July 31, 2016

آنے والے 22مہینوں کو سیاسی جماعتوں، خصوصاً وفاق اور صوبوں میں برسر اقتدار حلقوں کے لئے آزمائش اور امتحان کا وہ دورانیہ کہا جاسکتا ہے جس میں عوام کو محسوس ہونے والی مثبت یا منفی کارکردگی 2018ء کے انتخابات پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اس وقت وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جس کی حکمت عملیوں کے اثرات پورے ملک پر کسی نہ کسی انداز میں مرتب ہوئے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور رقبے کے اعتبار سے سب سے وسیع صوبے بلوچستان میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی ہے۔ دریائے سندھ کے بالائی حصے پر واقع خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور زیریں حصے پر واقع صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے۔ یہ سب جماعتیں عوام کی خدمت کرنے، انہیں آسانیاں فراہم کرنے اور انہیں اچھا نظم حکومت دینے کے وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہیں۔ اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی موجودہ آئینی میعاد اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے تو قدرتی طور پر برسر اقتدار پارٹیوں کی قیادتوں پر اس احساس کا دبائو بڑھ رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ان کی کارکردگی کو جانچا جائے گا۔ سندھ میں سید مراد علی شاہ کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کا فیصلہ اسی احساس کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خاصی تگ و دو کے بعد اپنے والد آصف زرداری سے، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کے مشکل وقت سے پارٹی کی رہنمائی کرتے رہے ہیں، اپنے اس موقف کی اصابت منوانے میں کامیاب ہوگئے کہ سندھ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سیدمراد علی شاہ نے جمعہ کے روز سندھ اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد عوامی خدمت، پیپلز اتھارٹی اور پیپلز رول کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ تعلیم، صحت اور امن ان کی بنیادی ترجیحات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے تاثر کو ختم کرنے کے علاوہ بہتر طرز حکومت اور میرٹ کی پاسداری پر خاص توجہ دی جائے گی۔ صاف ترین کراچی، سبز ترین تھر، محفوظ ترین سندھ کے لئے وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، کم سے کم پروٹوکول رکھیں گے اور وقت کی پابندی ان کا شعار ہوگا۔ وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ماضی میں اہم منصوبوں اور ترقیاتی کاموں کے ذریعے عوام کو متاثر کرتے رہے ہیں۔ اب بھی ان کی حکومت ایک طرف عالمی سطح پر تسلیم کئے گئے اشاریوں کے حوالے سے ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کی دعویدار ہے تو دوسری جانب انرجی اور مواصلات سمیت کئی سیکٹروں میں اہم منصوبوں پر کام میں مصروف ہے۔ جمعہ کے روز انہوں نے مری میں اعلیٰ سطح کے سات گھنٹے طویل اجلاس کی صدارت کی جس میں دو سال کے لئے جاری منصوبوں کے اہداف کی ٹائم لائن مقرر کی گئی، توانائی کے منصوبے 2018ء سے پہلے بہرصورت مکمل کرنے کی ہدایات دی گئیں اور واضح کیا گیا کہ تمام منصوبوں میں پیش رفت کا وزیر اعظم بذات خود جائزہ لیں گے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پارٹی چیئرمین عمران خان کے وژن کی روشنی میں پولیس نظام میں اصلاحات کیں، اسپتالوں کی بہتری پر توجہ دی اور کرپشن کے لئے ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کا دعویٰ کیا ہے۔ زیر تکمیل منصوبوں کو اگلے مہینوں میں تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا یہ رجحان خاصا حوصلہ افزا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ تینوں اہم پارٹیاں مقررہ مدت میں اپنے پلان نہ صرف مکمل کرلیں گی بلکہ عام لوگوں کو اپنے روزمرہ معمولات میں بھی ان کے مثبت اثرات محسوس ہوں گے۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے دائرہ اقتدار میں ان تصورات کو مثالی عملی صورت دیں جن کا ان کے منشور میں وعدہ کیا جاتا ہے۔ عوام ان کاموں کی بنیاد پر ہی بعد کے الیکشن میں اپنے ووٹوں کے استعمال کا بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ آئندہ انتخابات میں شفافیت کے وہ تمام تقاضے ملحوظ رکھے جائیں جن کی بناء پر ان کے نتائج تمام حلقوں میں خوشدلی سے تسلیم کئے جاسکیں۔