اے عقل مند لوگو، معیشت کی فکر کرو...تیشۂ نظر۔۔۔۔۔وجاہت مسعود

June 07, 2014

SMS: #WMC (space) message & send to 8001
wajahat.masoodjanggroup.com.pk
آئندہ مال سال کا بجٹ قومی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ بجٹ کا کل تخمینہ تقریباً چار ہزار ارب روپے ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں 1422 ارب روپے کا فرق ہے۔ گویا کل 30 فیصد سے زیادہ اخراجات ایسے ہیں جن کے لئے وسائل موجود نہیں۔ بجٹ کے حسن و قبح پر بات تو ہو گی لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں نیک اور پارسا شہریوں کا ایک گروہ ایسا ہے جسے معیشت کی بدحالی میں صرف ایک زاویے پر بات کرنا پسند ہے اور وہ یہ کہ بجٹ میں 1325 ارب روپے ان قرضوں کی واپسی کے لئے مختص کیے گئے ہیں جو ہماری خوددار قوم ماضی میں لے کر ڈکار چکی ہے۔ اب قرضے واپس کرنا پڑ رہے ہیں تو قرضوں اور سود کے خلاف باتیں جاری ہیں۔ یہ سوال تو تب اٹھنا چاہئے تھا جب یہ قرضے لئے جا رہے تھے ۔ برادرم قاسم ہالے پوتا کہتے ہیں کہ جب ہم نے یہ قرض لئے تو ہمیں یقین تھا کہ جلد ہی قرض دینے والے عالمی ادارے اور اقوام حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گی اور ہمیں سود کی ادائیگی سے نجات مل جائے گی۔ یہ امید حباب برآب ثابت ہوئی۔ مغرب کی استعماری قوتیں تو ایک طرف ہمیں تو کئی خلیجی ممالک کو بھی بیاج ادا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ ہم نے لاہور میں ایک سڑک کو ایک سابق خلیجی سفیرکے نام نامی سے منسوب بھی کیا ہے۔ صاحب معاملہ یہ ہے کہ معیشت تو پیسے کا کھیل ہے۔ مفت کی روٹیاں توڑنا اس میں روا نہیں سمجھا جاتا۔ ’جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں‘۔
کوئی بیس برس پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کو حرام قرار دیا تھا۔ پھر فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ آیا۔ ایک کاروباری ادارے نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔ دس برس پہلے سپریم کورٹ نے معاملہ پھر وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا۔ اس بیچ میں زمین پہ بہت سے اتار چڑھائو آئے، بہت سے موسم آئے، زمین بدل گئی، آسمان کا رنگ بدل گیا۔ معیشت کے سودی پہلو پہ بہت سی آرا موجود ہیں۔ کچھ اصحاب جامعہ الازہر کا ایک فتویٰ پیش کرتے ہیں۔ کچھ نیکوکار اس فتوے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ معیشت ایک اڑیل ٹٹو ہے۔ یہ چوپایہ تو منافع کی گھاس پہ دلکی چال چلتا ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ہماری معیشت کا حال اچھا نہیں۔ محترم غلام اسحاق خان سے محترم اسحاق ڈار تک ہر سال بجٹ کا معاملہ سامنے آتا ہے تو گویا ہمارے پیٹ سے کپڑا اٹھ جاتا ہے۔ ہم بہت سی لیپا پوتی کرتے ہیں، اعداد و شمار کی جھالریں سجاتے ہیں مگر معیشت کا دیوتا بہت سنگدل ہے۔ سادہ بات یہ ہے کہ ہم نے بہت پہلے یہ طے کر لیا تھا کہ کام کریں ہمارے دشمن۔ ہم تو ادھر ادھر سے مال ہتھیائیں گے۔ کبھی اس بنئے کا گلا دبائیں گے تو کبھی اس ساہوکار کے گھٹنے پکڑیں گے۔ برآمدات ہماری کم ہیں۔ ضروریات زیادہ ہیں۔ کاروبار کا پہیہ پٹرولیم پہ چلتا ہے۔ پٹرولیم کی 85 فیصد ضروریات ہمیں باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔ گزشتہ برس ہم نے اندازہ لگایا تھا کہ ہماری آمدنی قریب 2700 ارب روپے ہو گی مگر پھر مالی سال ختم ہوتے ہوتے ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری آمدنی تو 1900 ارب روپے ہے۔ اب پھر خود کو دھوکہ دیا ہے اور اگلے سال کے لئے آمدنی کا ہدف 2810 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ جادو کی اس چھڑی کا کوئی نام و نشان نہیں جو دو کھرب کی آمدنی کو 3کھرب میں بدل دے۔ یہ تین کھرب روپے وصول ہو بھی جائیں تو 1720 ارب روپے صوبوں کو دینا ہیں۔ صرف قرضوں پر سود کی مد میں 1325 ارب روپے ادا کرنا ہیں۔ 750 ارب دفاع پر خرچ ہونا ہیں۔ یہ وسائل کہاں سے آئیں گے۔ پچھلے تین سال سے برآمدات کا حجم نہیں بڑھا۔ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بیرون ملک سے ترسیلات میں کمی کا رجحان پایا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا یہ ترسیلات مزید کم ہوں گی۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کی بقا، استحکام اور ترقی معیشت سے منسلک ہے۔ نظریاتی بحثوں کو چھوڑ کر معاشی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہئے۔ ہر وقت دوسروں کی طرف ہاتھ پھیلائے رکھنے سے ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنا بند کر دینا چاہئے۔ یہ خلیج کے بہت سے ممالک تیل کی دولت سے مالامال ہیں۔ اس کے باوجود ان کے سیاسی نظام کے استحکام کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ان کا تمدنی ڈھانچہ ہم سے زیادہ پسماندہ ہے۔ ان کی معیشت کو طویل مدتی تناظر میں پائیدار نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان کے پاس ایک ایسی دولت ہے جو بہت سے ممالک کے فلک کو بھی نصیب نہیں ہے۔ہمارے پاس چودہ کروڑ باصلاحیت نوجوان موجود ہیں۔ صحیح اور قابل اطلاق تعلیم کی مدد سے ہم ان نوجوانوں کو ایسے سرمائے میں تبدیل کر سکتے ہیں جو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کے لئے ہمیں اپنا تصور تعلیم تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں تلقین کی بجائے تحقیق کو بنیادی قدر قرار دینا چاہئے۔ نوجوانوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی آزادیوں اور تفریحات کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ ہمیں معاشرے کو متوسط طبقے کی ریاکاری سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔
حکومت اتنی تعداد میں ملازمتیں پیدا نہیں کر سکتی جن سے بیروزگاری کی شرح نیچے لائی جا سکے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ روزگار کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ امن و امان کا مسئلہ حل کیے بغیر سرمایہ داری کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ سرمایہ دار کو اغوا برائے تاوان کا اندیشہ درپیش ہو تو وہ اپنا سرمایہ دائو پر کیوں لگائے گا۔ بیرونی سرمایہ کار کو ترجیحی درجہ دینا چاہئے۔ اگر بیرونی ہنر مند اغوا ہو رہے ہوں تو لوگ سیاحت کے لئے پاکستان کیوں آئیں گے۔ سیاحت ہمارے لئے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔ سکھ مذہب کے کم و بیش تمام مقدس مقامات پاکستان میں واقع ہیں۔گندھارا تہذیب کے آثار پوٹھوہار سے سوات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سیاح گھر سے سیر تفریح کے لئے نکلتا ہے۔ گندم سے لے کر کپاس اور گنے تک ہماری فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ زرعی تحقیق کے اداروں کو فعال کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے ملک میں ٹیکس کی ثقافت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے ۔ پاکستان کی قسمت میں نہیں لکھا کہ ہم ایک بھکاری قوم بن کر جئیں گے لیکن ہمیں لایعنی مباحث اور نقصان دہ اہداف سے جان چھڑانی چاہئے۔ دنیا میں اس قوم کی کوئی عزت نہیں جو ہر برس ہاتھ پھیلائے دوسروں کے دروازے پر پہنچ جائے۔ حیرت ہے کہ ہماری بچیاں اپنی مرضی سے شادی کر لیں تو ہماری غیرت جوش میں آجاتی ہے۔ دوسری طرف چار ہزار ارب کے بجٹ میں چودہ سو ارب کا خسارہ پایا جائے تو ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ یہ غیرت نہیں ، اجتماعی پسماندگی ہے۔ قرض لیتے وقت ہمیں غیرت نہیں آئی ۔ اب سود ادا کرتے ہوئے ہمیں مذہبی اصول یاد آرہے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ریاست قرض لیتی ہے تو اس کے لئے ریاستی ضمانت دی جاتی ہے۔اس کا کوئی تعلق عقیدے سے نہیں، یہ کاروبار کا معاملہ ہے۔ کسی کی پارسائی کو ایسا ہی میٹھا برس لگا ہے تو وہ اپنے پلے سے یہ قرض واپس کر دے۔ہمیں معلوم ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔معیشت کی منطق پارسائی سے تعلق نہیں رکھتی۔ معیشت بذات خود ایک اعلیٰ اخلاقی قدر کے بل پر حرکت کرتی ہے اور اسے دیانت داری کہتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر دیانت داری سے انحراف کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ بجٹ ہمارے مسائل حل نہیں کر سکے گا۔ اس سے ہمارے معیار زندگی میں تبدیلی بھی نہیں آسکتی۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمیں 13 سو ارب روپے سود میں واپس کرنا ہیں ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم معیشت کے تقاضوں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔