وزیراعظم نواز شریف کا دورہ دہلی

June 10, 2014

وزیراعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ دہلی کے بارے میں سرکاری سطح پر اور میڈیا میں کافی شور و غوغا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اور جو نہیں ہوسکا اس کا غیرجذباتی انداز میں تجزیہ کیا جائے تاکہ اس بات کا محتاط انداز میں جائزہ لیا جاسکے کہ آگے بڑھنے کا درست راستہ کیا ہونا چاہئے۔نریندرا مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا وزیراعظم کا فیصلہ درست سمت میں قدم تھا۔ دعوت قبول کرکے دورہ کرنے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سردمہری کو ختم ، کشیدگیوں کو کم اور تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔
اگرچہ سارک رہنماؤں کو مدعو کرنے کا مقصد یہی تھا کہ مودی کی حلف برداری کی تقریب کو ایک ایسے رہنما کی قانونی حیثیت بنانے کی مشق میں بدلا جاسکے جس کا ماضی تنازعات سے داغدار ہے لیکن اس کے باوجود اس سے نوازشریف کو ایک ایسے شخص سے جلد رابطہ قائم کرنے کا موقع ملا جس نے آئندہ پانچ سال تک بھارت پر حکمرانی کرنی ہے۔دونوں رہنماؤں کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور مثبت مناظر دیکھنے کو ملے، کم از کم بھارتی سیکرٹری خارجہ کی بعد از ملاقات بریفنگ تک یہ تاثر قائم رہا جس میں اس نے اس ملاقات کے بارے میں ایسا تاثر دیا جیسے اس پر بھارتی دہشت گردی ایجنڈا غالب رہا ہو۔
50منٹ تک جاری رہنے والی باہمی ملاقات سے جو توقعات پیدا ہو چلی تھیں ان میں سے کیا پوری نہیں ہوئیں۔دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ صرف ذرا سے بہتر نتیجہ یہ رہا کہ خارجہ سیکرٹری آپس میں رابطے میں رہیں گے اور آگے بڑھنے کے راستے تلاش کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہی گفتگو برائے گفتگو اور اس کے لئے کسی مدت کا تعین بھی نہیں کیا گیا۔اس وسیع تر امن عمل سے متعلق کسی عزم کا اعادہ بھی نہیں کیا گیا جسے کئی سال سے جامع مذاکرات کے نام سے پکارا جاتا ہے بلکہ الٹا پاکستانی فریق نے دورے کے دوران بلاضرورت اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ اس ہیئت کے متعلق زیادہ فکر مند نہیں ہے۔مودی سے ملاقات کے بعد وزیراعظم کے واحد اعلامیے میں پاکستان کی ترجیحات و خدشات کو صاف صاف بیان کرنے اور ان کا اظہار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور ایسا اس کے باوجود ہوا کہ وزیراعظم کا بیان بھارتی سیکریٹری خارجہ سجاتا سنگھ کی پریس کانفرنس سے باخبر ہونے کے لئے موخر کر دیا گیا تھا جس میں انہوں نے بھارت کے دہشت گردی کے مطالبات سامنے رکھ دئیے تھے اور یہ پریس کانفرنس پاکستانی فریق کو حقیقت شناس بنانے کے لئے کافی ہونی چاہئے تھی۔سجاتا سنگھ نے ملاقات کو ایسے بیان کیا جیسے وہ محض دہشت گردی پر ہی مرکوز رہی لیکن پاکستانی وفد نے اس تاثر کو درست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور بھارتی فریق کو داستان بیان کرنے کی پوری اجازت دی جس میں پاکستان کا کوئی متوازن موقف شامل نہیں تھا۔
وزیراعظم کے بیان میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں اس پر کوئی بات کی گئی تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ روبرو ملاقات میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔
بدقسمتی سے روایات کے برخلاف کل جماعتی حریت کانفرنس کے کشمیری رہنماؤں سے وزیراعظم یا ان کے وفد کے کسی بھی رکن کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔دورے کے بعد ایک پریس بریفنگ میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی مذکورہ بالا نکات کا بالواسطہ طور پر اعتراف کیا۔ سنجیدہ نوعیت کے معاملات کو اٹھانے میں پاکستانی فریق کی ناکامی پرعذر لنگ تراشا گیا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ ایک رسمی دورہ تھا جس کے دوران سنجیدہ نوعیت کے معاملات بشمول مسئلہ کشمیر گفت و شنید کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔لیکن وہ اس کی وجہ بیان کرنے میں ناکام رہے کہ جب دوسرے فریق نے سنجیدہ نوعیت کے معاملات اٹھائے تو پاکستانی وفد اپنے اہم امور اس کے سامنے رکھنے سے کیوں جھجھکا۔اس حوالے سے کم از کم بھی یہ کہا جائے گا کہ ایک اچھے ارادے سے کئے گئے دورے کو برے اور غیر پیشہ ورانہ طریقے سے انجام دیا گیا۔ سرتاج عزیز نے اس بات کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا کہ تجارت کے شعبے میں بھی دہلی نے ستمبر 2012 کے مذاکرات سے سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی نہ کہ جنوری 2014 سے،جب وزیر تجارت خرم دستگیر نے دہلی سے بہتر شرائط پر بات چیت کی تھی، جس میں مختصر سی مدت میں بھارتی منڈی کو پاکستان کی زیادہ برآمداتی مصنوعات کے لئے کھولنے پر نئی دہلی کی رضامندی بھی شامل تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں مودی حکومت نے اپنا موقف سخت کر لیا ہے۔زیادہ نمایاں سرتاج عزیز کا یہ اعلان تھا کہ پاکستان جامع مذاکرات کا ڈھانچہ دوبارہ تشکیل دینے پر راضی ہے۔ یہ اسی بات کا اعادہ تھا جو پہلے پاکستانی وفد نے دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی کہ وہ ایک نئی طرز کی بات چیت کے لئے تیار ہیں۔پاکستان کے ایک دیرینہ موقف کو اس طرح فراخدلی سے ترک کردینا سمجھ سے بالاتر ہے اور وہ بھی اس طرح بلا سوچے سمجھے کہ اس اسٹرکچر کی جگہ کون لے گا یا بھارت کس پر راضی ہوگا۔ پاکستان کے لیے 8 نکاتی ایجنڈے پر مشتمل مذاکرات کا ایک وسیع فریم ورک اہمیت کا حامل ہے نہ کہ ایک مذاکراتی عمل کیونکہ یہ ہیئت ان تمام خدشات اور تنازعات کی عکاسی کرتی ہے جو اسلام آباد کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔درحقیقت 1997 میں تشکیل دیا گیا مذاکرات کا یہ جامع اسٹرکچر رکاوٹوں اور تعطیلات کے باوجود تقریباً ڈیڑھ دہائی سے کردار ادا کرتا رہا ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے خدشات و ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔ سب سے حالیہ روڑا جنوری 2013 میں اٹکایا گیا تھا جب بھارت نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پیدا ہونے کے بعد باضابطہ بات چیت منقطع کردی تھی۔اس طرح کا ایک سفارتی تعطل 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد بھی پیدا ہوا تھا لیکن 2011 میں بھارتی رویّے میں تبدیلی پیدا ہوئی اور وہ محض نام کے جامع مذاکرات پر واپس لوٹ آیا پھر بعد از ممبئی بحال ہونے والی بات چیت کے دو مکمل ادوار ہوئے۔ تیسرا دور شروع ہوا ہی تھا کہ جنوری 2013 میں ختم کر دیا گیا۔ جس کے بعد سے اب تک دوبارہ شروع نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت صرف ایسی ملاقاتوں پر ہی آمادہ ہوا جو اس فریم ورک سے باہر رہیں مثلاً تجارت ۔2008 اور 2011 کے درمیان اور ابھی حال ہی میں بھارتی حکام نے اکثر یہ بات دہرائی کہ جامع مذاکراتی عمل قدرتی موت مرچکا ہے۔ انہوں نے مذاکرات کی وسعت کو دو چیزوں تک محدود کرنے کی بھی کوشش کی یعنی تجارت و دہشت گردی تک، تاکہ دیرینہ تنازعات اور پاکستان کے لئے اہمیت رکھنے والے امور کو دیوار سے لگایا جاسکے۔لیکن حتیٰ کہ پی پی پی کی زیر قیادت ایک کمزور حکومت تک نے اس کی مزاحمت کی اور وسیع تر مکالمے پر ہی ڈٹی رہی اور دہلی کو سلسلہ بحال کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن مضحکہ خیز طور پر مسلم لیگ (ن) کی ایک ‘مضبوط‘ حکومت اس عمل سے دستبردار ہونے پر اپنی آمادگی کے اشارے دے رہی ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی ٹیم اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام ہوگئی ہے کہ آخر کیوں اس نے اس عمل کو فالتو قرار دیا۔ایک اچھی طرح مستحکم کثیرالجہتی عمل کو چھوڑ دینے اور مستقبل کے مذاکرات کی شرائط کو تبدیل کرنے کے خطرات بالکل واضح ہیں۔ بھارت صرف اپنی پسند کے معاملات کو منتخب کرکے مذاکرات کی وسعت کو محدود کرنے کی کوشش کرسکتا ہے جیسا کہ اس نے ماضی قریب میں بھی کیا تھاجس کا اندازہ اس کی سیکرٹری خارجہ کے بیانات سے بھی ہوتا ہے۔
طاقتور خارجہ پالیسی کو اپنانے کی خواہشمند مودی حکومت سے ازسرنو تشکیل کردہ اسٹرکچر میں پاکستان کے لئے اہمیت رکھنے والے متنازع معاملات کو شامل کرانا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔نئی ساخت میں زیادہ خطرات پنہاں ہیں جو کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر اسے باضابطہ امن عمل سے نکال باہر کر سکتے ہیں۔ یہ چیز کشمیر کی بطور ایک تنازع بین الاقوامی اور دو طرفہ حیثیت تباہ کر دے گی اور کشمیریوں کو واضح طور پر ایک منفی پیغام جائے گا، ایک ایسے وقت جب بی جے پی کے وزراء آئین کی شق 370 کے تحت جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ان تمام وجوہات کی بنا پر مذاکرات کے لئے منظور کردہ فریم ورک کی شرائط پر دوبارہ بات کرنا ایک فاش سفارتی غلطی ہوگی۔ یہ شرائط کئی سال تک بہت سارے چیلنجوں اور مشکلات کے باوجود برقرار رہی ہیں۔
اسلام آباد کو اب اپنی سفارت حکمت عملی اچھی طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ چونکہ فی الحال دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کی سلسلہ جنبانی شروع ہونے کی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے لہٰذا اسلام آباد کے پاس موقع ہے کہ وہ تمام دستیاب مواقع پر بہت احتیاط سے غور کرے اور مودی کی خارجہ پالیسی کی سمت سامنے آنے کے بعد اس کا اچھی طرح جائزہ لے اور پھر خوب پھونک پھونک کر اگلا قدم اٹھائے۔مودی سے تعلقات بنانے کے چکر میں پاکستان کو سلسلہ جنبانی کے لئے ایک منتخب اور مشروط نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کے جھانسے میں آنے سے بچنا ہوگا۔ پاکستان بھارت تعلقات کی تاریخ اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ ایک جزوی اور یکطرفہ ایجنڈے پر توجہ مرکوز کرنے اور متنازع معاملات کو بالائے طاق رکھنے سے تعلقات معمول پر لانے کے لئے ایک پائیدار بنیاد تعمیر نہیں ہوگی۔اسلام آباد کو دہلی کی ایسی کسی بھی کوشش سے محتاط رہنا ہوگا جس سے وہ مکمل بات چیت کی بحالی کو پاکستان کی جانب سے ماقبل مراعات کے بدلے میں کسی طرح کے صلے کے طور پر استعمال کرے، جو اس کا ماضی میں بھی بسا اوقات وتیرہ رہا ہے۔دونوں ممالک کو ارتکازی معاملات مثلاً تجارت کو ترقی دینے کی کوشش کرتی رہنی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل کا ہدف ہونا چاہئے کہ تنازعات کو حل اور نزاعی امور کو محدود کرکے مستقل اور پائیدار بنیادوں پر تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔تجارتی تعلقات بھی تبھی آگے بڑھیں گے جب مشکلات سے بھرپور موجودہ تذویراتی ماحول کا حل نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہوں۔اگر عدم استحکام کی وجوہات برقرار رہیں تو معاشی انجن امن عمل کو کھینچنے میں ناکافی ثابت ہوں گے۔حکومت کو یہ بہانا بند کردینا چاہئے کہ خیر سگالی حکمت عملی کا متبادل ہو سکتی ہے۔ اسے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ پائیدار امن کے لئے باہمی عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور امن کا قیام یکطرفہ طور پر ممکن نہیں اور نہ ہی پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف یا سمجھوتہ کرنے سے امن قائم ہوجائے گا۔