خارجہ پالیسی :کشمیریوں کی حمایت، تصادم سے گریز!

August 05, 2016

وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں منعقدہ پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کی اختتامی نشست میں بدھ کے روز جو خطاب کیا، اس کا ہر نکتہ اگرچہ وطن عزیز کی خارجہ حکمت عملی کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، تاہم دو باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں، اسے نئی دہلی نے بھی متنازع مانا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع قرار دیا ہے جس میں کشمیری عوام بنیادی فریق ہیں،کشمیر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ بھی ہے، یہ مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے، پاکستانی قوم اس مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل چاہتی ہے۔ وزیر اعظم کے مذکورہ خطاب کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہم کسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ تصادم میں الجھنے سے اقتصادی و سماجی ترقی رک جائے گی۔ ہم پوری دنیا میں باہمی احترام ،وقار اور برابری کی بنیاد پرامن کے خواہاں ہیں۔ وزیر اعظم نے درست طور پر پاکستانی قوم کی اس خواہش کا اعادہ کیا ہے جوقیام پاکستان کے وقت سے یہ قوم جنوبی ایشیامیں امن اور دوستانہ تعلقات کے حوالے سے رکھتی رہی ہے۔ وزیر اغظم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پاکستانی قوم کی اس خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جانا چاہئے۔ خارجہ حکمت عملی کے مختلف پہلوئوں کے جائزے اور دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستانی سفیروں سے اعلیٰ سطح پر مشاورت اگرچہ وطن عزیز میں پرانا معمول ہے مگر اس بار کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت ہوا جب مقبوضہ کشمیر میں ایک نوجوان کشمیری رہنما برہان وانی کی قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعداس قتل پر احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ عالمی برادری کو دیگر امور پر پاکستانی موقف سے آگاہ کرنے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ،مسئلہ کشمیر کے حقیقی پس منظر اور ان خطرات سے پوری طرح آگاہ کیا جائے جو مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث نمایاں ہو رہے ہیں۔ 8جولائی سے مقبوضہ کشمیر کے بیشتر شہروں میں جاری کرفیو اور شہداء کے جنازوں میں شریک لوگوں پر انتہائی مہلک ہتھیاروں سے براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں بدھ3اگست تک شہید کشمیریوں کی تعداد 65جبکہ بینائی سے محروم ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اہم ملکوں اور کثیر الجہتی اداروں میں تعینات پاکستانی سفیروں سےخطاب میں دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں، امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی صورتحال، پاک چین اقتصادی راہداری سے پیدا ہونے والے امکانات سمیت متعدد موضوعات کا احاطہ کیا۔ انہوں نے سفیروں کو ہدایت کی کہ کشمیرکا مقدمہ عالمی سطح پر نئے عزم کےساتھ لڑیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہیں ہوگا کہ بھارت ایک طرف تمام تاریخی حقائق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرف سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایسے خود ساختہ واقعات کے ڈرامے رچا رہا ہے جن کا وہ شروع سے عادی رہا ہے، دوسری طرف وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر دنیا بھر میں پروپیگنڈہ مہم چلاتا رہتا ہے۔ جبکہ کرہ ارض کا جو ملک سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا وہ پاکستان ہی ہے اور جس نے بھارت کے اہم حاضر سروس فوجی افسر سمیت ایسے ایجنٹوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے جو اس ملک میں دہشت گردی کے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قوم کی اس سوچ سے پوری دنیا کو آگاہ کیا جائے کہ وہ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے، کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر حریصانہ نظر نہیں رکھتی اور نہ ہی دوسرے ملک کو اس بات کی اجازت دے سکتی ہے کہ اسے کسی بھی انداز سے جارحیت کا نشانہ بنائے۔ جیسا کہ وزیراعظم نے کہا، پاکستانی سفیروں کو دنیا میں روشن پاکستان کا تشخص اجاگر کرنا ہے۔ عالمی برادری کو ان کاوشوں سے آگاہ کیا جانا چاہئے جو پاکستان کرہ ارض کے امن کے حوالے سے کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔