بھائی رام سنگھ کی تعمیر و ڈیزائن کردہ عمارات اور پرویز رشید

July 15, 2014

گزشتہ ہفتے ہم نے میو اسکول آف آرٹ (این سی اے) کا اپنے کالم میں ذکر کیا تھا۔ چنانچہ ہمیں بیشمار فون اور ایس ایم ایس موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک فون پرانے لاہورئیے اور مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے شیخ علائوالدین کا بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے میو اسکول آف آرٹ سے وابستہ کئی لوگوں کا ذکر کیا۔ مگر جس شخص نے لاہور شہر، پنجاب اور پشاور کی لاتعداد خوبصورت عمارات تعمیر اور ڈیزائن کیں بلکہ ایک نئے فن تعمیر سے متعارف کرایا آپ نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔
سو دوستوں بھائی رام سنگھ وہ پہلا ہندوستانی شخص تھا۔ جو ترکھان سے میو اسکول آف آرٹ (میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹس) کا پہلے وائس پرنسپل اور پھر پرنسپل بنا اور یہیں سے تعلیم بھی حاصل کی اور اس ادارے کی عمارت اس کے پہلے پرنسپل John Lock Wood Kipling کے ساتھ ملکر ڈیزائن کی اور بنائی۔ یہ خوبصورت عمارت آج بھی موجود ہے اور اب اس کو این سی اے کہا جاتا ہے۔ جہاں لکڑی کا کام اور تعمیراتی حسن اپنے عروج پر ہے۔
اس شخص نے لاہور کے تعمیراتی حسن کو ایک نئی جِلا بخشی۔ اب ہمیں جستجو ہوئی کہ آخر یہ بھائی رام سنگھ کون تھے اور کہاں سے آئے اور لاہور کے فن تعمیر کو ایک نئے انداز سے متعارف کرایا۔ مجھ سمیت بہت سارے لاہوریوں کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں حالانکہ ہمارا تعلق تو امرتسر سے ہے لیکن مجھےلاہور کی تاریخی عمارات سے عشق کی حد تک پیار ہے اور ہم نے ایک عرصہ تک جنگ میں لاہور کے تاریخی مقامات اور عمارات پر فیچرز بھی دیئے ہیں۔سو ہم نے این سی اے کے پرنسپل پروفسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری سے رابطہ کیا۔ وہ اس وقت حاکمان وقت اور سابق حاکمان کے شہر اسلام آباد کو رواں دواں تھے۔ پھر بھی انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے ندیم حسین جو این سی اے کے رجسٹرار اور ہمارے بڑے پیارے دوست ہیں۔ ان کو بھائی رام سنگھ پر ایک جامع خوبصورت اور نایاب کتاب فوری طور پر مہیا کرنے کو کہا۔ یہ کتاب این سی اے کی سابق پرنسپل پروفسر ساجدہ ونڈل اور ان کے میاں پرویز ونڈل نے مل کر لکھی ہے۔ واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں کئی نایاب تصاویر مختلف عمارات کی ہیں۔ کاش ساجدہ ونڈل اس کتاب کو اردو میں شائع کر دیں۔ بٹالہ کے علاقے کا ایک ترکھان جس نے صرف 13برس کی عمر میں امرتسر کے ڈپٹی کمشنر کے بیٹے کا پیانو ٹھیک کر کے انہیں حیرت میں ڈال دیا تھا۔
بھائی رام سنگھ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی عمارات کو ڈیزائن کرنے اور تعمیر کرنے کا بہت شوق تھا۔ چیفس کالج (ایچیسن کالج) کی انتہائی خوبصورت عمارت آج ہمارے سب کے سامنے ہے۔ تعمیراتی حسن اور فن کمال کا یہ ایک شاہکار ہے۔ آپ اس عمارت میں چلے جائیں آپ کو ذرا بھی گرمی کا احساس نہیں ہو گا۔ ہوا اور روشنی ہر طرف سے آ رہی ہے۔ آج ہم بھی بجلی کے بحران کا شکار ہیں لیکن بھائی رام سنگھ کی تعمیر اور ڈیزائن کردہ عمارات میں گرمی کا احساس تک نہیں۔ انہوں نے جنرل پوسٹ آفس کی کس قدر خوبصورت عمارت بنائی۔ ہم نے اس میں گرلیں، جنگلے، گندمی جالیاں لگا کر اِس عمارت کے حسن کو تباہ کر دیا۔ ہم نے ہر تاریخی عمارت کی خوبصورتی میں اضافہ کی بجائے اُس کو بدصورت کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ضرور بونگی حرکت کی ہے۔جی پی او کی عمارت کا شمار ملک کی خوبصورت عمارات میں ہوتا ہے، مگر ہمارے ناسمجھ پالیسی ساز آئے دن اس عمارت کے حسن کو خراب کرنے میں لگے رہتے ہیں۔بھائی رام سنگھ کی تمام عمارات کو آج ایک سو دس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن ان کی مضبوطی، تعمیراتی حسن اور طرزِ تعمیر آج بھی منفرد اور اچھوتا ہے، پنجاب یونیورسٹی کی اولڈ کیمپس کی عمارت اور لائبریری، جس کو ہماری یونیورسٹی والے ہر سال لال رنگ کر کے اس کو بدنما کرنے کی پچھلے پچاس برس سے کوشش کر رہے ہیں، مگر پھر بھی اس کا تعمیراتی حسن کہیں نہ کہیں سے نظر آ ہی جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران وائس چانسلر جامعہ پنجاب ایک علم دوست انسان ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اِس تاریخی عمارت کو مزید جاذبِ نظر بنانے کے لئے اقدامات کریں۔کوئین میری کالج و اسکول کی تاریخی عمارت جو 1910ء میں بھائی رام سنگھ نے بنائی، آج بھی بڑی پرشکوہ عمارت ہے، مگر حکومت کی طرف سے مناسب فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے یہ عمارت شکست و ریحت کا شکار ہو رہی ہے۔ قارئین کے علم کے لئے بتا دیں کہ اس تاریخی کالج میں پانچ بزرگ شخصیات کے مزار بھی ہیں۔ اس عمارت میں لکڑی کا بھی بڑا خوبصورت کام اور جالیاں آج بھی موجود ہیں اور موجودہ پرنسپل ڈاکٹر عرفانہ مریم اس کی تاریخی عمارت کو محفوظ کرنے کے لئے کافی اقدامات کر رہی ہیں۔ یہ تاریخی عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔البرٹ وکٹر ہسپتال (اے ای ایچ) لاہور میوزیم، میونسپل ہال (ٹائون ہال) منٹگمری ہال (جہاں کبھی جمخانہ کلب تھا اور آجکل قائداعظم لائبریری ہے) ٹولنٹن مارکیٹ، گورنمنٹ کالج لاہور کا کوارڈینگل (اقبال ہوسٹل جہاں کبھی علامہ اقبالؒ بھی قیام پذیر رہے) ٹیوپن ہال (جہاں پر میو ہسپتال کی نرسیں رہتی ہیں) البرٹ وکٹر ہسپتال جس کا گنبد انتہائی خوبصورت ہے، مگر افسوس کہ اِس کا ایک حصہ مدت ہوئی اکھڑ چکا ہے، حالانکہ تھوڑی سے محنت اور توجہ سے یہ گنبد پوری طرح اپنے تعمیراتی حسن کی طرف لوٹ سکتا ہے مگر کون کرے گا؟ ماڈل ٹائون سوسائٹی کا آفس، زرعی کالج لائل پور (اب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد) دربار امرتسر اور امرتسر کے دیگر دربار، کیرالہ اسٹیٹ کے بنگلے، غرض عمارات کی ایک طویل فہرست ہے۔ جو بھائی رام سنگھ نے ڈیزائن کیں یا تعمیر کیں۔میو اسکول آف آرٹ (این سی اے) کو چاہیے کہ وہ اس شخص کے لئے اپنے ادارے میں کوئی یادگار بنائے، جس نے لاہور کو ایک نیا تعمیراتی حسن بخشا۔ ہماری قوم بہت بدذوق واقع ہوئی ہے، کئی برس قبل ریگل چوک میں خاص قسم کی لال اینٹوں کی ایک خوبصورت عمارت تھی، اُس عمارات کو گرا دیا گیا، شروع میں شور مچا، بعد میں کچھ نہ ہوا۔
اس طرح باغبانپورہ میں بدھو کا آوا جس جگہ ہے وہاں پر انگریزوں نے ایک یادگار بنا کر اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔
THE SITE KA AWAH AND THE HOUSE OF GENDRAL AVITABILE.
اس پر ایک پنکچر لگانے والے اپنے گندے ٹائر ڈالے ہوئے ہیں! کسی دن وہ اِس یادگار جگہ کو بھی پنکچر کر کے اپنی دکان میں شامل کر لے گا۔گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید John Lock Wood Kiping اور بھائی رام سنگھ کے ادارے فرخ سہیل گوئندی کے کہنے پر آئے، تو خیال تھا کہ وہ اس ادارے میں چند لمحے ہی گذاریں گے مگر انہوں نے جس طرح فنون لطیفہ کے شعبہ میں دلچسپی کا اظہار کیا اور کوئی اڑھائی گھنٹے تک اس ادارے میں رہے، سٹاف کو ملے۔ اس موقع پر انہوں نے ایک دلچسپ بات یہ کہی کہ میں آج اس تاریخی کالج میں آیا اور میرا خیال تھا کہ میڈیا مجھ سے کوئی سیاسی بات نہیں کرے گا بلکہ این سی اے میں جو سمر کیمپ لگایا گیا ہے جس میں ان سٹوڈنٹس نے شرکت کی جن کا تعلق اس کالج سے نہیں، کوئی میڈیکل سٹوڈنٹس تو کوئی کسی اور شعبے کا۔ کاش میڈیا والے ان سو بچوں کے انٹرویوز کرتے۔ ان سے بات کرتے تو مجھے خوشی ہوتی مگر میڈیا والے تو ہر وقت سیاسی بیان چاہتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے میڈیا والوں کو کہا کہ آج ہم ایک تعلیمی ادارے میں آئے ہیں آپ تعلیم پر بات کریں۔ کوئی فنون لطیفہ پر بات کریں۔ رنگ و برش کی بات کریں مگر کسی نے ان کی اس بات پر غور نہ کیا۔پرویز رشید اپنی بیٹی، ڈاکٹر سعید الٰہی اور فرخ سہیل گوئندی کے ہمراہ آئے تھے اور جس طرح انہوں نے پرنسپل کے کمرے میں لکڑی کے کام کے بارے میں بات چیت کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات میں رہنے کے باوجود ان کے اندر آرٹ اور فن کار کو سمجھنے کی حس زندہ ہے۔پرویز رشید کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم ’’گوروں‘‘ کو ہر وقت برا بھلا کہتے ہیں۔ گوروں ہی نے یہ کالج بنایا۔ اس کی تعمیر کے لئے فنڈز دیئے۔ آزادی حاصل کئے ہوئے ہمیں 67برس ہو گئے، مگر ہم ایک اور این سی اے نہ بنا سکے۔ انہوں نے اس ادارے کو یونیورسٹی بنانے کے لئے وفاق سے بات کرنے کا وعدہ کیا بلکہ ڈاکٹر سعید الٰہی کے ذمہ بھی یہ کام لگایا کہ وہ مری کا ریسورس سنٹر اس ادارے کو لے کر دیں۔ این سی اے کی 150سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ سمر اسکول کا اہتمام لاہور اور راولپنڈی دونوں کیمپس میں کیا گیا، جس میں ان سٹوڈنٹس نے شرکت کی، جنہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ برش اور رنگوں کو ہاتھ لگایا تھا اور ایک ماہ میں وہ بچے اس قابل ہو گئے کہ انہوں نے اپنی تیار کردہ پینٹنگز کی نمائش بھی کر ڈالی۔ جسے وفاقی وزیر نے بہت سراہا۔ اصل بات کہنے کی یہ ہے کہ آج کے اس ذہنی دبائو کے ماحول میں آرٹ کے ذریعے انسان کو چند لمحے سانس لینے کا اور خیالات کو کینونس پر بکھیرنے کا موقع ملتا ہے اور ایسے اداروں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔